تعلیم ،ترقی اور جاپانی لوہا

تعلیم ،ترقی اور جاپانی لوہا

جاپان کا ترقی ،خوشحالی اور دفاع کے حوالے سے پوری دنیا میں طوطی بولتا تھا۔جنگ کے دوران پوری دنیا ایک طرف جاپان گویا دوسری طرف تھامگر صحیح معنوں میں ایک جاپان سب پہ بھاری پڑرہا تھا۔پھرایٹمی حملے سے جاپان کی ترقی،خوشحالی،دفاع،صنعت ، معیشت اور معاشرت کی عمارت یکلخت زمیں بوس ہوگئی۔ نفسیاتی شکست اس پر سوا تھی۔یہ کوئی مردہ دل قیادت رکھنے والاملک نہیں تھا کہ اس شکست کی کئی دہائیوں تاب نہ لاسکتا۔جاپانی شکست کے بعدایک نئے عزم،جذبے اور ولولے کے ساتھ اُٹھے اور دوبارہ معاشی طاقت بننے کیلئے بہت کم عرصہ میں پائوں پر کھڑا ہوئے،چلنا شروع کیا اور دوبارہ ترقی کی دوڑ میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ نمایاں ترین مقام حاصل کیا اور آج بھی اپنی صنعتی ترقی میں ’’جاپانی لوہا‘‘ کسی بھی مشین یا گاڑی میں مضبوطی کا ضامن سمجھا اور بولا جاتا ہے۔ جنگ کے خاتمے پر سب سے پہلے تعلیم کے شعبے پر توجہ مرکوز کی گئی۔تعلیمی اداروں کی از سرِ نو عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ دوسرے نمبر پرتمام سرکاری و پرائیویٹ ملازموں اور مزدوروں نے حکومت کو آفر کی کہ وہ کام دس گھنٹے کریں گے مگر تنخواہ آٹھ گھنٹے کی لیں گے۔ یہ جاپان کی ترقی کے یہ دو اجزاء ہیں اور اس میں تعلیم بنیادی جزو ہے۔
جاپان کے پاس نہ تو تیل اور کوئلہ جیسے انرجی وسائل تھے اور نہ ہی لوہا یا دیگر کوئی بڑے قدرتی وسائل، یہاں تک کہ جاپان کے زرعی وسائل بھی پاکستان سے کہیں کم تھے مگر اس نے ترقیاتی تعلیم پر توجہ دی اور ٹیکنالوجی میں ساتویں آسماں پر پہنچ گیا اور اب تک کی انسانی تاریخ میں کسی مغربی ممالک کے علاوہ واحد ایشیائی ملک ہے جس کی ٹیکنالوجی کی دھاک اور دھوم پوری دنیا میں ہے۔ جاپان کے علاوہ جنوبی کوریا اور چین وہ ایشیائی ممالک ہیں جو تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اور ان کا راز بھی تعلیم ہی ہے۔ مغربی ممالک چین کے طرز حکومت کو مکمل جمہوریت نہیں مانتے کیونکہ وہاں ایک ہی سیاسی پارٹی ہے اور چین ایک نیم اور نرم کمیونسٹ ملک ہے ۔اس سے پہلے روس ایک سخت ترین کمیونزم کے نظام کے ساتھ دنیا میں امریکہ کے مقا بل دوسری بڑی طاقت بن گیا تھا۔ اس طرح جمہوریت کے بغیر دنیا میں طاقت بن کر روس بھی ثابت کر چکا ہے کہ اگر آپ تعلیم اور تحقیق پر خرچ کریں تو ترقی کر سکتے ہیں۔ اب آپ وطن عزیز کی مثال لیں 70 سال ہونے کو آئے ہیں مگر شرخ خواندگی بمشکل 60% ہے واضح رہے کہ پاکستان میں ایک پیراگراف لکھ اور پڑھ سکنے والے کو ہم خواندہ شمار کرتے ہیں۔بے شک وہ کبھی سکول گیا ہو یا نہ گیا ہو۔
چلیں اسی کو معیار مان لیں تو صرف پانچ سال میں تعلیم لازمی قرار دے کر سو فیصد شرخ خواندگی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ مگر یہ ابھی تک ترجیح نہیں بن سکی۔ بھارت کے نوبل پرائز ونر نے بہت خوبصورت تبصرہ کیا کہ بھارتعجیب ملک ہے جو خواندگی کے بغیر ترقی یافتہ ہونے کا خواہش مند ہے۔
ہم پانچ سالہ منصوبہ شروع کرتے ہیں مگر مطلوبہ ٹارگٹ حاصل نہیں کر پاتے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ترقی کی پلاننگ کے لئے وسائل کے ساتھ ساتھ مسائل کا ادراک اور لوگوں کی تعداد کا علم ہونا پہلی ضرورت بلکہ شرط ہے مگر ہم نے 1998ء کے بعد سے اب تک مردم شماری ہی نہیں کی تو پلاننگ چہ معنی دارد؟۔ تعلیم اور ترقی کی تو سب سے پہلی اور بڑی ضرورت دیہات میں تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ہے جہاں آبادی کا 60% رہائش پذیر ہے۔ مگر ہم دانش سکول جیسے 5 منٹ کے خیال کو عملی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیہات پر توجہ دیئے بغیر تعلیم میں ترقی کانعرہ کھوکھلا ہی نہیں بیہودہ لگتا ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقے صرف سرکاری سکولوں پر انحصار کئے ہوئے ہیں یوںان علاقوں میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے نہ ہونے کے باعث شرح خواندگی زیادہ کم ہے۔ دیہات میں سکولوں کی حالت زار زبوں حالی کا منہ بولتا ہی نہیں منہ چڑاتا ثبوت ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن کی تحریک رنگ لائی اور سینئر کلرک کو 14 واں گریڈ دے دیا گیا مگر پرائمری سکولوں میں فقط نویں گریڈ تک عوض بھی اساتذہ تعلیم دے رہے ہیں۔ یوں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنے لوگ کتنے شوق سے اساتذہ بننا پسند کریں گے اور تعلیم کیسے ترقی کرے گی!
بات ہو رہی تھی جاپان کی صنعتی دوڑ کی تو یاد رہے ایک بچہ پہلے بیٹھنا، پھر کھڑے ہونا، چلنا اور بھاگنا سیکھتا ہے۔ بعد میں طے ہوتا ہے کہ وہ دوڑ جیت پائے گا کہ نہیں۔ یہی صورت حال ایک قوم کی ہوتی ہے۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ ہم مذکورہ مراحل میں سے ابھی کس مقام پر ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ترقی کے حوالے سے ہم ابھی پالنے میں ہیں۔واضح رہے کہ جس قوم نے چلنا نہ سیکھا ہو اگر اسے بھگانے کی کوشش کریں تو منہ کے بل گرنے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔