پنجاب ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ (پیف) ماں کی طرح ہے

پنجاب ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ (پیف) ماں کی طرح ہے

پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کے نام سے پنجاب حکومت نے تعلیمی وظائف کا ایک انقلابی پروگرام شروع کیا ہے۔ اب وہ ایک تناور درخت بن گیا ہے۔ اس کی چھاﺅں میں کئی غریب مگر لائق بچے بیٹھے ہوتے ہیں۔ محبت درخت نہیں ہوتی، چھاﺅں ہوتی ہے۔ میں اس محفل میں نہ جا سکا۔ مجھے ڈی جی پی آر کے برادرم امجد نے بلایا تھا۔ مجھے برادرم شعیب بن عزیز اور ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ یہ ایک انوکھی اور دردمندی کی برسات میں نکھری ہوئی بہت مختلف تقریب تھی۔ تقریب سے کچھ زیادہ ولولہ انگیز اور بھرپور اجتماع تھا۔ 

یہاں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف خاص طور پر شریک ہوئے تھے۔ انہوں نے جذبات کے طوفان میں بھیگتے ہوئے زبردست خطاب کیا۔ اس بات کی خوشی ان کی آنکھوں میں تھی کہ یہ تقریب ان بچوں کے اعزاز میں ہے جو عام پاکستان کے بچے تھے، جو محنت مزدوری سے زندگی کو ایک اور زندگی بناتے ہیں۔ یہی پاکستان کا اصل مستقبل ہیں جو زندگی کے سارے معانی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو ارب روپے سالانہ کے اس فنڈ میں ہر سال دو ارب کا اضافہ ہو گا۔ دور آباد اور پسماندہ علاقے فاٹا کی بچیوں کیلئے ماسٹرز لیول تک تعلیم کیلئے وظائف کا اعلان کیا گیا ہے۔ پنجاب سے باہر بھی یہ اچھائیاں جانے لگی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جن پر توجہ کرنا اصل سیاست ہے۔ صرف یہی کام ہیں کہ وزیراعلیٰ کو خادم اعلیٰ کہا جا سکتا ہے۔ سات سال میں ایک لاکھ وظائف کا ہدف عبور کیا گیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر وظائف دیئے جا رہے ہیں۔ وظائف کو ایک سال کے اندر دو لاکھ تک پہنچایا جائے گا۔ عالمی ادارے بھی اب اس سلسلے میں تعاون کر رہے ہیں۔
شہباز شریف نے ڈاکٹر امجد ثاقب کی بہت تعریف کی۔ وہ انڈوومنٹ فنڈ کے وائس چیئرمین ہیں۔ شکر ہے وہ شریک چیئرمین نہیں ہیں! کہا گیا کہ یہ امجد ثاقب کی محنت اور لگن سے ممکن ہوا کہ آج ہم یہاں فخر سے کھڑے ہیں۔ ہمارے ساتھ وہ بچے ہیںجو اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے والدین بھی ہیں جن کے تمتماتے ہوئے چہروں پر مسرت اور تشکر کی اشکباریوں کا موسم ایک روح پرور منظر بنا رہا تھا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے ساتھ برادرم شعیب بن عزیز بھی موجود تھے۔ وہ ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں، اہلیتوں کے بے حد قائل ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اہل ہیں اور اہل د ل بھی ہیں۔ شعیب بن عزیز شہباز شریف کے لئے اس طرح کے فلاحی منصوبوں کیلئے ہر وقت مستعد رہتے ہیں۔ مستحق لوگوں کو شہباز شریف سے متعارف کرانے میں وہ بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے اپنی گفتگو کے دوران ڈاکٹر امجد ثاقب کیلئے حاضرین سے محبت بھری تالیوں کی فرمائش کی اور ایک منٹ تک ایوان اقبال میں تالیاں گونجتی رہیں۔ یہ گونج علامہ اقبال تک بھی پہنچ گئی ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب حقیقت میں ولی اللہ ہیں۔ کوئی مانے نہ مانے میں تو دل سے مانتا ہوں۔ ویسے لوگ بھی اب مانتے ہیں۔ آغاز میں انہوں نے بلاسود قرضے دینے کی روایت ڈالی تھی۔ حیرت ہے کہ لوگ یہ قرضے واپس کرتے تھے بلکہ بعد میں اس قابل بھی ہوتے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی مدد بھی کرتے۔ میں نے اس حوالے سے ایک جملہ کہا تھا جو انہیں آج تک یاد ہے۔ میں نے ڈاکٹر امجد ثاقب سے قرض نہیں لیا مگر میں اس کا مقروض ہوں۔ اس حوالے سے میں نے اپنی ایک دوست کلاس فیلو خاتون کا واقعہ بھی سنایا تھا کہ میرے امتحانی داخلے کیلئے اس نے میرے پیسے میرے دوست کو دیئے تھے۔ میں کچھ عرصے بعد اسے ملا اور کہا کہ میں تمہارے پیسے واپس کر سکتا ہوں مگر میں تمہارا مقروض رہنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے بھی گفتگو کی۔ پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانش ور وائس چانسلر کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر مجاہد کامران نے اپنے خطاب میں شہباز شریف کو خراج تحسین پیش کیا۔ ایک اعلیٰ ادارے پیف کے ذریعے ایک تعلیمی نقلاب برپا کر دیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے کم وسیلہ نادار بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران پنجاب یونیورسٹی میں بھی فلاحی اور تعلیمی منصوبے چلاتے رہتے ہیں۔ وہ ہر وقت سوچتے ہیں کہ تعلیم، تحقیق اور تخلیق کا ذوق و شوق کس طرح طالب علموں کے دلوں میں ڈال دیا جائے۔ میں ان کیلئے ہمیشہ کہتا ہوں کہ وہ مادر علمی کو مادر وطن کے ساتھ ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں۔
محفل میں بہت بچے تھے جو عملی زندگی میں اعلیٰ مقام پر ہیں اور وطن کی خدمت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد مرتضیٰ نے بتایا کہ میں ایک رنگ ساز کا بیٹا ہوں اور اب ایک ڈاکٹر ہوں۔ مجھے ڈاکٹر بنانا میرے باپ کا خواب تھا مگر تعبیر نہیں ملتی تھی، ہم نے کہیں بھی درخواست نہ دی۔ ایک دن پیف والے نے ہمیں تلاش کیا اور کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے آپ کے تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک خوبصورت جملہ ڈاکٹر مرتضیٰ نے کہا باپ اپنے بچوں کو وہ کھلونے بھی لا کر دیتا ہے جو کبھی اپنے لئے بھی خرید نہ سکا۔ اب ایم بی بی ایس کی ڈگری اس کیلئے وہی کھلونا ہے۔
ایک مسیحی نوجوان عرفان شمعون مسیح نے کہا میں ایک خاکروب کا بیٹا ہوں، ہم جیسے گھرانوں میں خوشیاں بھی سڑک پر پڑے کوڑے سے چننا پڑتی ہیں۔ بہت سے بچوں والے گھر میں میرے لئے میٹرک کے بعد تعلیم جاری رکھنا ناممکن تھا۔ میری ماں مجھے خاکروب کے روپ میں دیکھ نہ سکتی تھی۔ اس نے اپنا زیور بیچ کر مجھے کالج میں بھیج دیا۔ یہ میری عزت کا مسئلہ تھا کہ میں ماں کی قربانی کو بھولی ہوئی کہانی نہ بننے دوں۔ میں نے اتنے اعلیٰ نمبروں میں کامیابی حاصل کی تو میری ماں بڑی دیر تک روتی رہی۔ اس کے بعد اب بیچنے کو کچھ بھی نہ تھا مگر اس کی ضد قائم تھی کہ میں آگے پڑھوں۔ اس دوران پیف کی طرف سے خط آ گیا کہ وزیراعلیٰ کے انڈوومنٹ فنڈز کی طرف سے سکالرشپ کے لئے مجھے منتخب کر لیا گیا تھا۔ مجھے پیف اپنی ماں کی طرح لگتی ہے۔ آج میں انجینئر بن کے ڈپٹی منیجر کے طور پر واپڈا ہاﺅس میں کام کر رہا ہوں۔ یہ سب شہباز شریف، ڈاکٹر امجد ثاقب کی پیف کی دین ہے ورنہ ایک خاکروب کا بیٹا کتنی ترقی کر سکتا۔
اب ایک اچھی بچی خوشنود حسن کی بات سنئے۔ وہ کہتی ہے میں گولڈ میڈل گلے میں پہن کر اپنے والد سے ملی تو اس نے تمتماتے ہوئے چہرے سے کہا کہ بیٹا جاﺅ اور یہ گولڈ میڈل میاں شہباز شریف کے گلے میں ڈال دو۔ وہی اس کے اصل حقدار ہیں۔ میں نے ایم فل کیمسٹری میں اول پوزیشن حاصل کی۔ کہانی وہی ہے، زیادہ بہن بھائی وسائل کی کمی، ذمہ داریوں کا بوجھ، میرے والد معمولی سکول ٹیچر ہیں۔ ہمارے گھروں میں خوشی عید کے چاند کی طرح ہوتی ہے جو کبھی نظر آتا ہے کبھی نہیں آتا۔ پنجاب ایجوکیشن فنڈ سے امتیازی نمبروں میں پاس ہونے پر میرے لئے سکالرشپ کا اہتمام کر دیا گیا تھا۔ آج میں ایک ایجوکیٹر کے طور پر کام کر رہی ہوں۔ میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی میں کردار ادا کروں گی۔ آج میں والد کی خواہش کے مطابق اپنا گولڈ میڈل خادم اعلیٰ کی نذر کر رہی ہوں۔ میں اپنا یہ کالم بھی ان کی نذر کر رہا ہوں اور درخواست کر رہا ہوں کہ وہ ایسے بے شمار کام اور کریں۔ میں کسی حکمران کیلئے اتنے جذبات سے نہیں لکھتا مگر آج وزیراعلیٰ کے لئے نہیں خادم اعلیٰ کیلئے لکھ رہا ہوں۔ میرے الفاظ میری آنکھوں میں دمک رہے ہیں۔