گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) ....اپنے وائس چانسلر کی منتظر
نظیری نیشا پوری کا ایک شعر ہے کہ:
درس ادیب اربود زمزمہ¿ محبتی
جمعہ بہ مکتب آورد طفل گریز پائی را
”اگر استاد محبت کے ترانے گائے تو طلباءچھٹی والے دن بھی مدرسہ آنا پسند کریں گے“
دانش گاہیں محبت و آشتی کے ترانوں کی آماج گاہ ہیں علم و حکمت کے سوتے یہی پھوٹتے ہیں۔ پاکستان کی انہی دانش گاہوں میں سے ایک جی سی یونیورسٹی سابقہ گورنمنٹ کالج لاہور ہے کہ مشہور دانشور اشفاق صاحب مرحوم کے قول کے مطابق یہ درس گاہ نہیں بلکہ درگاہ ہے اور واقعتا اس درگاہ نے جو یان علم کو اپنے چشمہ فیض سے سیراب کیا ہے اور اس کے طالبان تخریب کی بجائے تعمیر کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ یہاں کے فارغ التحصیل طلبا و طالبات اولڈ راوین کہلاتے ہیں اگرچہ یہ جوش جذبہ میں کبھی بھی اولڈ نہیں ہوتے اور گورنمنٹ کالج کے courage to know کے مصداق کچھ کر گزرنے کا جذبہ ان کو ہر پل مضطرب و بے قرار رکھتا ہے۔ سیاست کا میدان ہو یا کھیل کی گراﺅنڈ، ملک کے دفاع کے لیے عسکری ادارے ہوں یا انتظامی امور چلانے والی بیورو کریسی، اس ادارے نے ہمیشہ نرسری کا کردار ادا کیا ہے اور ملک و قوم کو سایہ اور چھاﺅں فراہم کرنے والے تناور درخت مہیا کیے ہیں لیکن حیرت ہے کہ اس ادارے کا نظام بغیر کسی سربراہ کے چل رہا ہے اور یوں فرض کر لیا گیا ہے کہ جیسے یہ شکر گڑھ کے گاﺅں ”منجی توڑ“ کا کوئی پرائمری سکول ہے جو ہیڈ ماسٹر کے بغیر بھی چلتا رہے گا اور اس ادارے کے پروفیسر صاحب کو بیرون ملک کانفرنسوں اور سیمیناروں میں جانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا کہ:
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
”کہ بادشاہان اپنی مملکت کے رموز کو خود جانتے ہیں تو ایک گوشہ نشین گدا ہے، شور غل نہ کر“۔
اگرچہ حافظ نے بادشاہان وقت کے رموز میں مداخلت سے منع کیا ہے لیکن چونکہ مملکت پنجاب کے بادشاہ میاں محمد شہباز شریف خود بھی اولڈ راوین ہیں اور اس ادارے کے لیے محبت کے جذبات رکھتے ہیں، کی خدمت میں معروضات پیش کی جا سکتی ہیں اگرچہ بقول حافظ:
اگرچہ عرض ھنر پیش یار بی ادبیست
زبان خموش و لکن دہان پر از عربیست
”محبوب کے سامنے ہنر کا اظہار بے ادبی ہے، کہنے کی ہزاروں باتیں ہیں لیکن زبان خاموش ہے“۔
پنجاب حکومت نے چند ماہ قبل دس یونیورسٹیوں کے سربراہان کے تقرر کے لیے درخواستیں طلب کیں اور انٹرویو کے بعد اہل امیدواران کا انتخاب بھی کر لیا گیا لیکن بوجوہ ابھی تک ان کی تعیناتی کے لیے آرڈرز جاری نہیں کیے گئے کسی بھی قوم کی ترقی و تعمیر کے لیے بنیادی شعبے تعلیم اور صحت ہیں اور ان کی اہمیت سے کسی فرد کو انکار نہیں لیکن پتا نہیں کون سے ”بزرجمہر“ ہیں جو اس تعیناتی کی راہ میں حیلوں بہانوں سے روڑے اٹکا رہے ہیں۔ ایران کے ایک عظیم دانشور نظامی عروضی سمرقندی نے سربراہ حکومت کے لیے ملک کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے اہم ترین جزو اچھے اور قابل دبیر کو قرار دیا تھا اور اکبر اعظم کے دور حکومت میں کسی مقامی ہندو راجہ نے کہا تھا کہ مجھے اتنا ڈر اکبر اعظم کے تیروں اور تلواروں سے نہیں لگتا جتنا ابوالفضل کے قلم سے ملک کا انتظام سنبھالنے والے ان دبیران یعنی بیورو کریٹس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ناجائز اختیارات کے حصول کے لیے کوشاں کسی بھی افسر کو تعلیمی اداروں کے سربراہان پر تلوار کی طرح لٹکا دینا ان کی اہلیت اور قابلیت کو زیر سوال لانا ہے۔ یہ لوگ وزیر اعلیٰ کی قائم کردہ کمیٹی کو انٹرویو دے کر اور اپنی بصیرت ’ویژن‘ کا اظہار کرکے منتخب ہوئے ہیں اور چار سال کے میقات کے لیے منتخب ہوئے ہیں، اس مدت کو دو سال کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے کیا پاکستان کے حکمران پانچ سال کی مدت کے بجائے دو سال میں قوم کو ترقی کی راہ پر لے جاسکتے ہیں یا کوئی طویل المدتی long-term منصوبہ شروع کر سکتے ہیں۔ یقیناً دو سال کی یہ مدت ان کی پرفارمنس کو اجاگر نہیں کر سکتی مزید برآں وہ دباﺅ کا شکار رہیں گے اور ان پر پریشر ڈال کر لوگ انہیں میرٹ سے ہٹ کر داخلہ کرنے کے لیے کہیں گے اور اپنے مذموم قاصد کی تکمیل میں کامیاب رہیں گے۔ دیدہ بینا کو ایسے بازیچہ¿ اطفال بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔