شنگھائی کانفرنس کے موقع پر نوازشریف‘ مودی ملاقات سے برف پگھلنے کی توقعات اور اصل حقائق

شنگھائی کانفرنس کے موقع پر نوازشریف‘ مودی ملاقات سے برف پگھلنے کی توقعات اور اصل حقائق

وزیراعظم قوم کو بتائیں کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر کا ذکر کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھا
روس کے شہر اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف کی بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ملاقات میں گزشتہ روز پاک بھارت تعلقات‘ خطے کی صورتحال‘ مذاکرات کی بحالی‘ کنٹرول لائن پر کشیدگی اور دہشت گردی سمیت تمام اہم اور تصفیہ طلب امور پر تبادلہ کیا گیا۔ تقریباً 55 منٹ تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں بھارتی وزیراعظم نے میاں نوازشریف سے شکوے شکایات کرتے ہوئے ذکی الرحمان لکھوی کی رہائی اور پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے ثبوت بھارتی ہم منصب کو فراہم کئے اور واضح کیا کہ ’’را‘‘ کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کو لگام دی جائے۔ ہم پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ ملاقات میں وزیراعظم نوازشریف نے 16 جون کو ڈھاکہ میں دیئے گئے مودی کے بیان پر بھی ان سے احتجاج کیا جبکہ بھارتی وزیراعظم نے جواباً میاں نوازشریف کے سامنے تین نکات اٹھائے اور کہا کہ ذکی الرحمان لکھوی کی رہائی ہمیں کسی طور قبول نہیں۔ انہوں نے پاکستان پر سرحد پار دراندازی کے الزامات کابھی اعادہ کیا۔ ملاقات کے بعد پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹریوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں وزراء اعظم کی ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس کیمطابق دونوں ممالک میں تنازعات باہمی بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں سربراہان حکومت نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ امن کو یقینی بنانا اور ترقی کو فروغ دینا پاکستان اور بھارت کی مجموعی ذمہ داری ہے۔ انکے بقول ملاقات میں جنوبی ایشیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون پر اتفاق کیا گیا اور ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کی گئی۔ سیکرٹری خارجہ پاکستان اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نے میاں نوازشریف کی دورۂ پاکستان کی دعوت قبول کرلی ہے۔
اس وقت بھارتی بڑھتے ہوئے جنگی جنون‘ اسکے توسیع پسندانہ عزائم اور پاکستان کو تسلسل کے ساتھ دی جانیوالی جنگ کی دھمکیوں سے پاکستان ہی نہیں‘ پورے خطے اور عالمی سلامتی کو جو گھمبیر خطرات لاحق نظر آرہے ہیں‘ اسکے پیش نظر شنگھائی کانفرنس کے موقع پر دنیا بھر کی توجہ پاکستان بھارت وزراء اعظم کی متوقع ملاقات پر مرکوز تھی اور اس ملاقات کے حوالے سے قیافے لگائے جا رہے تھے۔ اس حوالے سے پاکستان اور بھارت کے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن بننے کو بھی دوطرفہ کشیدگی کے خاتمہ کیلئے مثبت پیش رفت قرار دیا جا رہا تھا اور اسی تناظر میں عالمی قیادتوں نے شنگھائی کانفرنس کے موقع پر بطور خاص پاکستان بھارت وزراء اعظم کی ملاقات سے توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ اگرچہ اس کانفرنس کے موقع پر چین اور افغانستان کے صدور سے وزیراعظم نوازشریف کی ملاقات بھی علاقائی اور عالمی امن و استحکام کے معاملہ میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے تاہم عالمی قیادتوں اور عالمی میڈیا کی توجہ پاکستان بھارت وزراء اعظم ملاقات پر ہی مرکوز رہی۔ اسی تناظر میں نوازشریف‘ مودی ملاقات کا دورانیہ آدھ گھنٹے سے 55 منٹ تک چلے جانا بھی میڈیا کی خصوصی رپورٹوں کی زینت بنا اور دونوں سربراہان کا ملاقات سے قبل 30 سیکنڈ تک ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رکھنا بھی بریکنگ نیوز بن گیا۔ اسی تناظر میںامریکی صدر باراک اوبامہ اور دوسرے ممالک کے سربراہان کی جانب سے پاکستان بھارت وزراء اعظم ملاقات کو خوش آئند قرار دے کر اسے مسائل کے حل میں مثبت پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے اور وائٹ ہائوس کے ترجمان نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے‘ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کم ہو۔ اس حوالے سے پاک بھارت وزراء اعظم کی ملاقات مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم اس ملاقات کا جائزہ لیتے ہوئے دوطرفہ کشیدگی کے خاتمہ میں کسی مثبت پیش رفت کے امکانات کا ہرگز عندیہ نہیں ملتا۔ چنانچہ اس ملاقات کی رسمی فوٹو سیشن سے زیادہ اہمیت نظر نہیں آتی۔ اس ملاقات کے حوالے سے جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیہ اور میڈیا رپورٹس میں اگرچہ یہ رسمی فقرے موجود ہیں کہ دونوں سربراہان تمام تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر متفق ہوئے ہیں مگر ملاقات کے دوران بنیادی تنازعہ کشمیر کا ذکر تک نہ ہونا اور مودی کا وزیراعظم نوازشریف سے ممبئی حملوں کے تناظر میں ذکی الرحمان لکھوی کی رہائی پر بھی اور پھر پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ پر بھی تحفظات کا اظہار کرنا اس امر کا عکاس ہے کہ بھارتی ہٹ دھرمی والا پرنالہ وہیں برقرار ہے جس کی روشنی میں دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے باہمی تنازعات کے حل کیلئے برف پگھلنے کی ہرگز توقع وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ اگر اس ملاقات سے کوئی حوصلہ افزاء صورتحال نظر آئی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ گزشتہ سال یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس اور پھر سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات سے دانستاً گریز کرنیوالے مودی نے اب وزیراعظم نواشریف سے باضابطہ ملاقات بھی کرلی۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق اب دوطرفہ مذاکرات کی بحالی کیلئے پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات ہو گی جبکہ مودی کے دورۂ پاکستان کی کوئی حتمی تاریخ بھی نہیں دی گئی اس لئے پاکستان کو دونوں سربراہان کی اس ملاقات کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کیونکہ بھارت کا اب تک کا رویہ گواہی دے رہا ہے کہ ہر سطح کے مذاکرات خود اس نے کسی نہ کسی حیلے بہانے سے سبوتاژ کئے ہیں۔ گزشتہ سال خارجہ سیکرٹریوں کی شیڈول ملاقات بھی خود بھارت کے ہاتھوں سبوتاژ ہوئی جبکہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ بھی اپنا شیڈول دورۂ پاکستان رعونت کے ساتھ منسوخ کرکے سرحدی کشیدگی بڑھانے کے کام میں جت گئے تھے۔ اب بی جے پی کے دور حکمرانی میں تو اس پارٹی کے منشور کے تحت پاکستان دشمنی کو فروغ دیا جارہا ہے اور اس سلسلہ میں اعلانیہ منصوبہ بندی کرکے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی گھنائونی سازشیں کی جا رہی ہیں جن کا اعلیٰ حکومتی سطح پر فخریہ اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ بھارتی وزیر دفاع نے پاکستان کے ساتھ جنگ کرنا بھارت کیلئے لازمی قرار دیا تو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کو بھی مقبوضہ کشمیر کی طرح اپنا اٹوٹ انگ قرار دے ڈالا۔ انہوں نے روس کے شہر اوفا میں دونوں ممالک کے سربراہان کی ملاقات سے ایک روز قبل بھی یہ شرانگیز بیان جاری کیا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے جسے عالمی فورموں پر اٹھانے سے پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر بھارت اپنی اس ہٹ دھرمی پر کاربند رہ کر دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل کی بات کرتا ہے تو اس سے بھارت کی جانب سے یو این قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے مستقل اور پائیدار حل پر آمادہ ہونے کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے جبکہ اس بھارتی ہٹ دھرمی کی روشنی میں پاکستان بھارت مذاکرات ویسے ہی بے سود ہونگے۔
اس وقت جبکہ خود بھارتی وزیراعظم پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی سازشوں میں پیش پیش نظر آتے ہیں جس کا وہ کھلم کھلا اظہار بھی کررہے ہیں تو کیا ان سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے مجوزہ دورۂ پاکستان کے موقع پر مسئلہ کشمیر کے قابل قبول حل کا کوئی فارمولا اپنے ہاتھ میں لے کر آئینگے۔ اول تو بھارت کی سابقہ روایات کے پیش نظر مودی کے دورۂ پاکستان کا یقینی ہونا بھی ممکن نظر نہیں آتا اور اگر وہ پاکستان آ بھی گئے تو پاکستان پر دراندازی اور دہشت گردی کے الزامات کی گٹھڑی اٹھا کر لائیں گے اور ہمیں اپنا چال چلن درست کرنے کی ہی تلقین کرینگے‘ اسکے برعکس وہ پاکستان میں ’’را‘‘ کی دہشت گردی کو بھی جائز سمجھتے ہیں اور پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی سازشوں کو فروغ دینے کیلئے یہاں موجود اپنے ایجنٹوں کی فنڈنگ اور عسکری تربیت بھی اپنا حق گردانتے ہیں اس لئے شنگھائی کانفرنس کے موقع پر پاکستان بھارت وزراء اعظم ملاقات سے پاکستان کی سالمیت کیخلاف بھارتی سازشوں میں کسی کمی کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ وزیراعظم نوازشریف نے ملاقات میں یکطرفہ طور پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان خطے میں امن و ترقی کیلئے تمام دورطرفہ مسائل کا پرامن حل چاہتا ہے مگر مودی وزیراعظم پاکستان کی اس خواہش کے جواب میں ممبئی حملوں کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈالتے اور ذکی الرحمان لکھوی کی رہائی پر تحفظات کا اظہار کرتے نظر آئے۔ وزیراعظم نوازشریف کو تو دوطرفہ تنازعات کے حل کی بات کرتے ہوئے دیرینہ اور بنیادی تنازعہ کشمیر کا ذکر کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ انکے ہم منصب بھارتی وزیراعظم تو کشمیر کا ذکر ہونے پر ویسے ہی سیخ پا ہو جاتے ہیں اس لئے شنگھائی کانفرنس کے موقع پر ہونیوالی پاکستان بھارت وزراء اعظم ملاقات پر خود پاکستانی قوم کو سخت تحفظات ہیں کہ مسکراہٹوں کے تبادلے میں کہیں کشمیر پر تو کوئی سودے بازی نہیں ہو گئی۔ اگر مودی پاکستان چین اقتصادی راہداری کسی صورت قبول نہ ہونے کا اعلان کر رہے ہیں اور بھارتی وزیر خارجہ یہ باور کرا رہی ہیں کہ مسئلہ کشمیر عالمی فورموں پر اٹھانے سے پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہو گا تو بھارت سے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی راہ پر آنے کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے۔ اسکے باوجود وزیراعظم نوازشریف اور وزارت خارجہ کو بھارت سے کسی قسم کی توقعات وابستہ ہیں تو نوازشریف کو چاہیے کہ وہ ملک واپس آتے ہی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں اور قوم کو مودی سے اپنی ملاقات کی تفصیلات بتائیں اور اس امر سے بھی آگاہ کریں کہ اس ملاقات میں انہوں نے تنازعہ کشمیر کا تذکرہ کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھا۔ اگر انہوں نے کشمیر کا تذکرہ کیا تو اس پر مودی کا کیا ردعمل تھا۔ وہ اس بارے میں بھی قوم کو آگاہ کریں تاکہ انکے بھارت کے ساتھ معاملات پر قوم میں کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ بصورت دیگر بھارتی کھچائو کے باوجود ہمارے حکمرانوں کا بھارت پر فریفتہ رہنا قوم کیلئے لمحۂ فکریہ بنا رہتا ہے۔