وزارت تعلیم‘ ایچ ای سی اور پبلک سروس کمیشن

وزارت تعلیم‘ ایچ ای سی اور پبلک سروس کمیشن

ہر محکمے کی تباہی اور کرپشن نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کے نصیب میں اچھے اور مخلص لیڈر نہیں ہیں۔ ہر طرف کرپشن کے انبار ہیں۔ حال ہی میں انڈیا سے ریلیز ہونیوالی ایک فلم ہمارے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے جس میں کراچی کو اس طرح دکھایا گیا ہے جیسے یہ بیروت‘ فلسطین‘ بوسنیا یا روہنگیا ہے یا پھر افریقہ کا کوئی پسماندہ‘ غیر مہذب‘ لاقانونیت‘ غربت اور کرپشن کا شکار ملک۔ اس فلم میں پاکستانی اداکاروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اسلام کی آئیڈیالوجی اور پاکستان کے نظریہ کا مذاق اڑایا گیا ہے‘ لیکن حکومت کی کارکردگی ملاحظہ فرمایئے کہ یہ فلم ہر چینل پر چلائی جا رہی ہے جس میں پاکستان اور اسلام کی تضحیک کا تمام سامان ہے۔ حال ہی میں محکمہ تعلیم بلدیہ کراچی میں اربوں کی کرپشن سامنے آئی ہے۔ محکمہ تعلیم کے تین اعلیٰ افسروں نے کرپشن میں ات مچا رکھی تھی۔ گرفتار افسر سلیم گھر کے 22 افراد کو ملازم ظاہر کرکے 7 لاکھ ماہانہ حاصل کرتا‘ والد کی پینشن لیتا اور 64 سالہ ساس بھی گھر بیٹھے تگڑی تنخواہ وصول کرتی تھی۔ سلیم نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ای ڈی اوز کو رشوت کی رقم دیتا تھا۔ یہ ایک ایسی شرمناک خبر ہے اور محکمہ تعلیم کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت۔ وزراء کو ٹاک شوز میں جانے‘ انٹرویوز دینے‘ بیانات اور تقریریں کرنے کے علاوہ فیتے کاٹنے‘ مہمان خصوصی بننے کا شوق رہتا ہے۔ جس کام کیلئے انہیں وزارت سونپی جاتی ہے‘ اسکے متعلق انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا کرنا ہے‘ حال ہی میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے ایک سرائیکی صوبہ اور اس کا نقشہ بھی درسی کتب میں شائع کر دیا۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اغلاط کا مجموعہ ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی ہر سال ایسی ایسی غلطیاں اور نالائقیاں سامنے آتی ہیں کہ آدمی سر پکڑ کر حیران رہ جائے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں پروف کی جو غلطیاں ہیں‘ وہ تو ایک الگ جہالت ہے‘ لیکن جو نصاب یہ لوگ شائع کرتے ہیں اور جو انتخاب درسی کتب میں شامل کیا جاتا ہے‘ وہ نہ تو عصری تقاضوں کے مطابق ہوتا اور نہ ہی اس کی کوئی ویلیو ہوتی۔ یوں لگتا ہے جیسے سبجیکٹ سپیشلسٹ بھی سفارش اور رشوت سے یہاں تک پہنچے ہیں۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی نااہلیوں کی ایک لمبی کہانی ہے جس کا کالم متحمل نہیں ہو سکتا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ سفارشی عناصر کا غلبہ رہا ہے۔ میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ آپ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی دو دہائیوں کا ریکارڈ دیکھ لیں۔ یہاں میرٹ پر تقرر عمل میں نہیں آیا۔ نتیجتاً پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ ایک نکما ترین ادارہ بن گیا ہے اور ان دو دہائیوں میں بچے اسلام‘ نظریہ پاکستان‘ حب الوطنی اور علم اور ہنر سے دور ہو گئے ہیں۔ آج پورے پنجاب میں انگلش میڈیم کے سکول‘ سلیبس اور انگریزوں کا کلچر چھایا ہوا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بچوں میں زہر کیوں پھیلایا جا رہا ہے۔ انہیں انگریزی تہذیب کا غلام کیوں بنایا جا رہا ہے۔ بچوں کے معصوم ذہنوں اور دلوں سے پاکستانیت اور اسلامی کلچرکیوں کھرچ کھرچ کر ہٹایا جا رہا ہے‘ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔(ن) لیگ کی حکومت کا ایجنڈا یہی رہا کہ کم پڑھے لکھے‘ غیر تعلیم یافتہ اورغیر تربیت یافتہ افراد کو وزارتیں اورعہدے دیئے جائیں تاکہ وہ (ن) لیگ کے قائدین سے کوئی علمی سوال نہ کر سکیں۔ موجودہ حکومت میں ہر نااہل‘ چاپلوس‘ چالاک آدمی ان کا وزیر‘ مشیر‘ چیئرمین‘ ڈائریکٹر‘ ہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے مشرف دور میں تعلیم کی بہتری کیلئے ایچ ای سی بنائی مگر بعد میں (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے اس ادارے کو بھی سفارشی کلچر سے نقصان پہنچایا۔ صوبائی سطح پر ایچ ای سی بنانا وزیراعلی کا خواب تھا تاکہ انکے پاس اختیارات آجائیں۔ چنانچہ یہاں بھی سفارشی‘ من پسند لوگ لگائے گئے ۔ ابھی تک صوبائی سطح پر ایچ ای سی نے کیا اقدامات کئے۔ یہ سوال اہم ہے جس کے جواب میں ایچ ای سی روایتی کاغذوں اور کارروائیوں کا پلندہ پیش کر دیگی۔ کیا کبھی وزارت تعلیم یا ایچ ای سی یا پبلک سروس کمیشن نے سوچا کہ ہر سال فارغ التحصیل افراد کی خدمات کو ضائع ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ کیسے ان کے علم اور تجربے سے ملک و قوم کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ کس طرح قوم کے اعلیٰ دماغوں سے پاکستان کو عظیم الشان ترقی دی جا سکتی ہے۔ میں نے گورنر پنجاب‘ ایچ ای سی کو خط لکھا‘ سفارشات پیش کیں۔ لیکن کسی نے کان نہ دھرا۔ پبلک سروس کمیشن نے گزشتہ ماہ ٹیچرز‘ لیکچررز‘ پروفیسرزکی 37 ہزار آسامیوں کا اشتہار دیا جس میں یہ گھسی پٹی شرط رکھی کہ تجربے کیلئے کسی گورنمنٹ کالج یا یونیورسٹی کو ہی قبول کیا جائیگا۔ گورنمنٹ کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں کبھی بھولے سے سال میں ایک دو آسامیاں نکلتی ہیں جنہیں پہلے ہی اپنے عزیزوں اور سفارشیوں کیلئے مختص کر لیا جاتا ہے۔ آسامی کا اشتہار صرف عدالتوں اور قانونی کارروائیوں سے بچنے کیلئے دیا جاتا ہے وگرنہ اصلاً تو اقربا پروری‘ سفارش اور رشوت پر پہلے ہی تعیناتی عمل میں آچکی ہوتی ہے۔ گورنمنٹ تعلیمی ادارے ان ہزاروں لاکھوں فارغ التحصیل افراد کو ملازمت نہیں دیتے۔ ہر سال یونیورسٹی کی سطح پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں طلباء و طالبات ڈگریاں لیکر سرکاری تعلیمی اداروں کے دھکے کھاتے ہیں ۔ مگر نوکریاں نہیں ملتیں۔ پنجاب میں تمام سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں من پسند افراد کا پہلے ہی تقرر ہو جاتا ہے پھر ان ہزاروں ڈگری ہولڈرز کو مجبوراً پرائیویٹ اداروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر انتہائی مضبوط اور عمدہ ہے۔ پرائیویٹ سکولوں‘ کالجوں اور بالخصوص یونیورسٹیوں میں اساتذہ سے اس طرح کام لیا جاتا ہے جیسے کسی باربردار جانور سے۔ جو تجربہ پندرہ بیس سالوں میں گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں آتا ہے‘ وہ تجربہ کسی پرائیویٹ کالج یا یونیورسٹی میں صرف دو سال کام کرکے آجاتا ہے۔ ایچ ای سی‘ پبلک سروس کمیشن اور وزرات تعلیم میں بھی اگر سب لوگ سفارش اور اقرباپروری کے ذریعے آئے ہیں تو وہ اس روایتی اور جاہلانہ فرسودہ طریقے کی حمایت کرینگے۔ اگر وہاں کوئی جینوئن آدمی اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر بیٹھا ہے تو وہ لازماً ہزاروں امیدواروں کو انکی اہلیت اور قابلیت پر نوکریاں دیگا اور ملک میں جاہلانہ نظام تعلیم کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریگا۔ آخر کب تک احمقانہ تجربوں‘ سفارشوں اور جعلی ڈگریوں پر تقرر ہوتے رہیں گے؟