بھٹو شہید …اک گوہر نایاب

 بھٹو شہید …اک گوہر نایاب

ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شہادت کو 36سال ہوچکے مگر وہ تاریخ اور سیاست میں آج بھی زندہ ہیں۔ بھٹو کا شمار دنیا کے ان ممتاز سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں تاریخ کو متاثر کیا اور مر کے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے بعد قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ بھٹو شہید نے 30 نومبر 1967ء کو پی پی پی کی بنیاد رکھی۔
اس وقت پاکستان کے عوام طالع آزما اور موقع پرست سیاستدانوں سے تنگ آچکے تھے اور اپنے مستقبل کے بارے میں مایوس تھے۔ عوام کے مقدر کے فیصلے چوہدری، سردار، نواب اور سائیں اپنے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر کرتے تھے ۔ کاروبار مملکت میں عوام کی کوئی نمائندگی نہ تھی۔ قیام پاکستان سے پہلے ہندو مسلمانوں کا استحصال کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مسلمان وڈیرے اور اشرافیہ ان کا استحصال کرنے لگے گویا قوم مایوسی کی گہرائیوں میں گر چکی تھی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو عوام کے زبردست نبض شناس تھے۔ انہوں نے جانچ لیا کہ قوم ایک معمار اور نجات دہندہ کی تلاش میں ہے چنانچہ انہوں نے عوامی توقعات اور خواہشات کے مطابق اور قائداعظم محمد علی جناح کے تصورات کی روشنی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اسلامی جمہوریت اور سوشلزم پر مبنی ایک انقلابی منشور قوم کو دیا۔
پاکستان کے غریب اور استحصال زدہ عوام نے اس منشور کو اپنے دل کی آواز سمجھا اور ذوالفقار علی بھٹو اپنی شخصیت اور انقلابی پروگرام کی بناء پر سیاست کے آسمان پر چھاگئے۔ انہوں نے عوام کے بے پناہ تعاون کی وجہ سے ایوب خان کی آمریت کو گرا دیا۔ جناب بھٹو سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے وہ دلوں میں انقلاب برپا کرنے کی قوت رکھتے تھے۔ انہوں نے 1970ء کے انتخابات میں جاگیرداروں کے بڑے بڑے بت پاش پاش کردئیے۔ انتخابات میں انقلابی پروگرام کی بنیاد پر سیاسی کارکنوں کو ٹکٹ دئیے گئے۔ یہ انتخابات اس لحاظ کے انقلابی انتخابات تھے کہ ان میں محنت کش متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد اسمبلیوں میں پہنچ گئی۔
پی پی پی نے مغربی پاکستان میں ایک اکثریتی جماعت کی حیثیت سے کامیابی حاصل کر لی۔ بدقسمتی سے جنرل یحییٰ خان نے انتقال اقتدار میں غیر معمولی تاخیر کردی اور نتیجہ ملک کے انتقال میں نکلا۔ پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو ایک شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پاک فوج کے نوے ہزار نوجوان بھارت کے قیدی بن گئے۔ اس جنگ کے بعد قدرتی طور پر قوم مایوس ہوگئی۔ فوج کا مورال گرگیا ہر طرف مایوسی اور بداعتمادی کی آگ جل رہی تھی۔ کوئی اس آگ میں کودنے کے لیے تیار نہ تھا اور سب قائدین حکومت سنبھالنے سے گریز اںتھے۔
بھٹو شہید قومی جذبے سے سرشار تھے وہ بحرانوں پر قابو پانے کے بادشاہ تھے اور ملک و قوم کے لئے بڑے کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے وقت کا چیلنج قبول کیا اور بقول اقبال ۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشۂ لب بام ابھی
بھٹو شہید نے اس نازک ترین دور میں اہم کردار ادا کیا۔ شکست خوردہ حوصلہ شکن فوج کا اعتماد بحال کیا۔ قوم کو مایوسیوں کی گہرائیوں سے نکالا اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے انقلابی اصلاحات نافذ کیں۔ ان کا مقصد نیک تھا وہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے مگر انگریزوں کا دیا ہوا ریاستی نظام ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ ان کی ٹیم میں شامل جاگیردار خود غرض رفقاء نے بھی ان سے منافقت کی اور پارٹی کے منشور پر عملدرآمد نہ ہونے دیا جس طرح قائداعظم اپنی جیب میں کھوٹے سکوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے۔ اسی طرح جناب بھٹو بھی جاگیردار ساتھیوں کی وجہ سے نہ صرف مشکلات کا شکار ہوئے بلکہ ان کی سازشوں اور بے وفائی کی وجہ سے تختہ دار تک پہنچ گئے۔ شہادت سے پہلے ان کی وصیت یہ تھی کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام میں امیر اور غریب طبقوں کو اکٹھے ساتھ لے کر پاکستان کے مسائل حل نہیں کئے جاسکتے۔
افسوس کہ ہم جس طرح بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے تصورات کو بھول گئے اسی طرح بھٹو شہید کی تعلیمات کو بھی فراموش کردیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ قوم بے یقینی کا شکار ہے۔ ہم نے اپنے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ پاکستان میں نت نئے تجربے کئے جارہے ہیں۔ ہم وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جن کا اعتراف قائدین نے کیا اور انہیں نہ دہرانے کا وعدہ بھی کیا مگر ان غلطیوں کو دہرا رہے ہیں اور ترقی و خوشحالی کے دعوے کررہے ہیں۔ جناب بھٹو بیوروکریسی کے خلاف تھے۔ وہ بیوروکریٹک ریاستی نظام کو تبدیل کرنے کی زبردست خواہش رکھتے تھے اور جاگیرداری کو ختم کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کا نظریہ یہ تھا کہ نوکر شاہی اور جاگیردار انقلاب کے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
1977ء کے انتخابات کے بعد اور پانچ سالوں میں انہوں نے بیوروکریسی اور جاگیرداری کا خاتمہ کرنا تھا۔ جاگیردار اور بیوروکریٹ ان کے اس ارادے سے آگاہ تھے لہذا انہوں نے امریکہ کی آشیرباد سے ایک گہری سازش کرکے جناب بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹا دیا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جاگیردارانہ نظام کی موجودگی میں پاکستان کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ بھٹو شہید جیسا مردآہن اگر جمہوریت کے ذریعے اس نظام کو نہ توڑ سکا تو اور کون اس نظام کو بدلنے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ بھٹو شہید پاکستانی قوم اور عالم اسلام کے لیے خدا کی بہت بڑی نعمت تھے۔ جب کوئی قوم خدائی نعمت کو ٹھکرا دیتی ہے تو وہ ایک عرصہ تک سرگرداں رہتی ہے اور اس وقت تک فلاح حاصل نہیں کرسکتی جب تک خدا ایک بار پھر مہربان نہ ہو اور قائداعظم یا قائد عوام جیسا دیدہ ور قوم کو میسر نہ آجائے۔
میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے اور اس میں کسی قسم کی عقیدت کو دخل نہیں ہے کہ اگر بھٹو شہید کو سیاسی منظر سے نہ ہٹایا جاتا اور انہیں پانچ سال کا مزید موقع مل جاتا تو پاکستان عالم اسلام کا مضبوط ترین قلعہ بن چکا ہوتا۔ تمام مسلمان ممالک اسلامک پیکٹ قائم کرچکے ہوتے اور آج امریکہ کو یہ جرات نہ ہوتی کہ وہ کسی مسلمان ملک کو دھمکی دے سکے یا اس کے خلاف جارحیت کرسکے۔ فلسطین اور کشمیر اب تک آزاد ہوچکے ہوتے کیونکہ بھٹو شہید یہودیوں کی سازشوں اور ان کی سفارت کاری کی چالوں سے بخوبی آگاہ تھے اور ان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ ہنر ی کسنجر نے بھی ان کی ذہانت ، اہلیت اور صلاحیت کا اعتراف کیا تھا۔ بھٹو شہید پی پی پی کے بانی تھے انہوں نے اپنا خون دے کر پاکستان پیپلز پارٹی کی آبیاری کی۔
1973ء کا متفقہ آئین اور ایٹمی صلاحیت بھٹو کے دو نایاب گفٹ ہیں۔بھٹو نے 1945ء میں قائداعظم محمد علی جناح کے نام ایک خط میں لکھا ’’مسلمانوں کو جان لینا چاہیئے کہ ہندو ہمارے ساتھ اکٹھے نہیںر ہ سکتے۔ وہ قرآن اور رسول ﷺ کے سخت دشمن ہیں۔ آپ نے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر ایک پرچم تلے جمع کیا ہے۔ اب ہر مسلمان کی ایک ہی آواز پاکستان ہونی چاہیئے۔ ہمارا مقدر پاکستان ہے، ہمارا مقصد پاکستان ہے۔ کوئی ہمیں اس کے حصول سے نہیںروک سکتا۔ ہم ایک قوم ہیں آپ نے ہمیں حوصلہ دیا۔ ہم آپ پر فخر کرتے ہیں۔ ابھی میں سکول میں ہوں اور مقدس سرزمین کے حصول کے لیے کام نہیں کرسکتا مگر وقت آئے گا جب میں پاکستان کے لیے اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔
جنرل (ر) فیض علی چشتی اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب "Betrayal of Another Kind" میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کو امریکی سی آئی اے کی آشیر باد حاصل تھی۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کو متاثر کرکے آرمی چیف بننے کی تربیت دی گئی تھی۔ طویل مارشل لا اور بھٹو کی پھانسی سی آئی اے کی حمایت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ افسوس عاقبت نا اندیش اور آمر جرنیلوں نے اک گوہر نایاب کو سولی پر چڑھا دیا اور تشدد، نفرت اور انتہا پسندی کی ایسی فصل کاشت کی جو موجودہ جرنیلوں اور عوام کو مل کر کاٹنی پڑرہی ہے۔…؎
اک گوہر نایاب گنوا بیٹھے ہولوگو
کس شخص کو سولی پہ چڑھا بیٹھے ہولوگو
٭…٭…٭