جبری ٹیکنیکل تعلیم‘ امن کی ضمانت

جبری ٹیکنیکل تعلیم‘ امن کی ضمانت

جہاں اگرچہ دگرگوں ہے، قُم باذن اللہ

وہی زمیں وہی گردوں ہے، قُم بان اللہ
مڈل، لوئر مڈل اور معاشی لحاظ سے اس سے بھی نچلے درجے کے لوگ جو اپنے بچوں کو سکول و کالج نہیں بھیج سکتے اور وہ لوگ جن کے بچے کسی دکان پر ، ورکشاپ پر اور ریڑھی لگا کر یا ٹریفک کے اشاروں پر اخبارفروشی کرتے اور گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہیں، ان کے علاوہ جتنے بچے بھیک مانگتے ہیںان سب کے والدین کو "گزارا الاﺅنس"دیا جائے جس سے ان کے گھروں میں کم از کم دو وقت کی روٹی میسر آجائے، اور مذکورہ بالا تمام بچوں کو گھروں سے ، دکانوں سے، ورکشاپوں سے،ٹریفک کے اشاروں بلکہ جہاں جہاں مساجد میں جو طلباءزیرِ تعلیم ہیں ان کی عمر اور اُن کے علم کے مطابق اُن کو بھی سکولوں اور کالجوں کی دوسری شِفٹوں میں جبری طور پر داخل کیا جائے۔ مزید برآں روایتی تعلیم کے ساتھ ان تمام طلباءو طالبات کو ٹیکنیکل ، پروفیشنل ، ووکیشنل اور ہنر مندی کی تعلیم و تربیت دی جائے، ایک بھی بچہ ایسا نہ رہ جائے جو بغیر کسی ہنر یا پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کےے اوربغیر سر ٹیفکیٹ، ڈپلومہ یا ڈگری اِن اداروں سے نہ نکلے۔جاپان ، جرمنی، سویڈن، چائنہ کوریا اور امریکہ سے سپیشل طور پر ایسے اداروں کے لےے خصوصی گرانٹس حاصل کی جائیں۔ٹرینڈ اساتذہ ایمانداری ، محنت و لگن سے ایسے تمام طلباءو طالبات کو خصوصی توجہ سے تعلیم و تربیت دیں۔اگر دس برس تک دن رات اس پروگرام پر ارباب ِ بست و کشاد ایمانداری، نیک نیتی اور محنت کے ساتھ کاوش کریں تو انشاءاللہ ملک کی کایا پلٹ جائے گی۔ تمام مسائل اور انتشار ختم ہو جائیں گے۔لیکن اگر سابقہ پروگراموں تعلیم ِ بالغاں، نئی روشنی، مساجد سکولوں اور اجالا سکولوں کی طرح صرف چند لوگوں کو نوازنے اور سرکاری رقوم ضائع ہی کرنا مقصد ہو، تو پھر ملک میں نہ کبھی حقیقی طورپر شرح خواندگی بڑھے گی، نہ غربت ختم ہوگی اور نہ ہی امن قائم ہو سکے گا۔جو کچھ اس وقت حکومت اور فورسز کر رہی ہیں اپنی جگہ، لیکن جب تک موجودہ عمل کی سپورٹ میں تعلیم و تربیت کا مجوزہ سلسلہ شروع نہ ہوا اور لوگوں کو روزگار نہ ملنا شروع ہوا، لوگوں کی محرومیاں اور مایوسیاںہرگز دور نہیں ہو ں گی۔
مجوزہ طریقہ تعلیم و تربیت کے تحت کچھ طلباءہائرایجوکیشن حاصل کر جائیں گے، کچھ بی اے وغیرہ کر کے ملازمت کر لیں گے، دیگر روزمرہ کے پیشیوں میں چلے جائیں گے، کوئی جوتے تیار کرے گا، کوئی حجام کا پیشہ اختیار کرے گا، کئی لوگ کارپینٹر بن جائیں گے، کئی سریا مولڈر اور ویلڈر بن جائیں گے، کوئی معمار، موٹر سائیکل مکینک، کارمکینک،الیکٹریشن ،ڈینٹر پینٹر بن جائیں گے، اسی طرح زرعی مشینری ، ٹیکسٹائل مشینری اور پرنٹنگ پریسوں وغیرہ کے میکینک بن کر باعزت روزگار پر آجائیں گے۔یقین جانئے زندگی کے ہر شعبے میں مین پاور (Man Power)کی سخت ضرورت ہے، چھوٹی سے چھوٹی فیکٹری کے گیٹ پر بھی"دستکاروں کی ضرورت ہے"لکھا ہوتا ہے ڈرائیور نہیں ملتے، کُک (cook)نہیں ملتے، مالی نہیں ملتے، ٹرینڈ اورسِکلڈ(Skilled)عملہ کی ملک کے اندر اور بیرون ِ ملک اشد ضرورت ہے۔
جب تک جبری طور پر حکومت نے پانچ برس سے اوپر کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم و تربیت پر نہ لگایا اور سیکنڈ شفٹ کے ریگولر سکول و کالج، ووکیشنل و پروفیشنل اور ٹیکنیکل اداروں کے علاوہ بی اے، بی ایس سی، ایم اے، ایم ایس سی والوں کو کمپیوٹر کے کورسز نہ کرائے اور اس سے بھی بڑھ کر جب تک اس سارے نظام کی ایماندانہ متواتر نگرانی کا اہتمام نہ کیا گیا تو ملک میں بد امنی اور بے چینی کا دور ِ دورہ رہے گا۔قارئین غور فرمائیں ملک بھر کے زندگی کے تمام شعبوں میں اجتماعی اور انفرادی حیثیت سے کس کس محکمے، ادارے اور پروفیشنل کو ٹیکنیشن کی ضرورت ہو سکتی ہے اور ہے؟
کلریکل سٹاف، کمپیوٹر سٹاف، ٹیکنیکل سٹاف، ہیلپرز، خرادےے، معمار، کار پینٹر حتیٰ کہ روز مرہ کاموں کے اتنے پیشے ہیں جن کے راقم نام نہیں گِنوا سکتا، جہاں تربیت یافتہ مین پاور (Manpower)کی اشد ضرورت ہے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔یہ سفید ہاتھی لٹریسی کمیشن اور محکمہ تعلیم کے کئی اور ادارے اور ڈیپارٹمنٹ وغیرہ کیا کر رہے ہیں۔ تجربہ کاراور جواں ہمت لوگوں کے سپرد الگ الگ شعبوں کی صورت میں یہ پروگرام ہوں، جو گھروں اور دفاتر میں بیٹھیں نہ رہیں۔ علاوہ ازیں ٹی اے ڈی اے کمانے کے چکر میں بھی نہ ہوں۔ ایک قومی کاز کے لےے ملک میں ایمرجنسی لگا کر ملک کے تمام ملازمین کے ٹی اے ڈی اے بند کر کے تمام سیاستدانوں کو اعتماد میں لے کر اللہ کے پاک نام سے کام شروع کر دیںاور دن رات سرکاری ملازم اور شہری ذمہ داری کے ساتھ اس منصوبے کی کامیابی کے لےے نیک نیتی سے کام میں لگ جائیں تو ہم ملک میں امن و امان قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قرضوں سے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جو ہر نفس سے کرے عمرِ جاوداں پیدا!