کوئٹہ : فضل الرحمن پر خودکش حملہ‘ محفوظ رہے‘ دو افراد جاں بحق‘ بس پر فائرنگ ہزارہ برادری کے 9 مسافر قتل

کوئٹہ : فضل الرحمن پر خودکش حملہ‘ محفوظ رہے‘ دو افراد جاں بحق‘ بس پر فائرنگ ہزارہ برادری کے 9 مسافر قتل

کوئٹہ+ لاہور (بیورو رپورٹ+ خصوصی رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار+ نامہ نگار) مولانا فضل الرحمٰن کوئٹہ میں خودکش حملہ میں بال بال بچ گئے، بلٹ پروف گاڑی مکمل تباہ، 2 افراد جاں بحق اور 20 سے زائد زخمی ہو گئے۔ صدر ممنون حسین ¾ وزیر اعظم نواز شریف ¾ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کر نے کی ہدایت کی جبکہ وفاقی وزیر داخلہ نے رپورٹ طلب کرلی۔ مفتی محمود کانفرنس صادق شہید گراﺅنڈ میں منعقد ہوئی جلسے کے اختتام پر مولانا فضل الرحمان بلٹ پروف گاڑی میں جیسے ہی جلسہ گاہ سے باہر نکلے تو گاڑی کے قریب زور دار دھماکہ ہو گیا۔ 10 زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ دھماکے سے 6 گاڑیوں، 8 دکانوں کو شدید نقصان پہنچا جبکہ متعدد عمارتوں، دکانوں اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ مولانا فضل الرحمٰن بلٹ پروف گاڑی ہونے کی وجہ سے معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ دھماکے کے بعد آسمان پر دھویں کے بادل چھا گئے اور بھگدڑ مچ گئی۔ جمعیت کے کارکنوں کی بڑی تعداد اپنے زخمی ساتھیوں کو خون کے عطیات دینے کیلئے ہسپتال پہنچ گئی۔ آئی جی پولیس بلوچستان عملیش خان نے کہا ہے کہ جلسہ گاہ کے اندر ڈیڑھ سو سے زیادہ افسران اور پولیس اہلکار موجود تھے سخت سکیورٹی کی وجہ سے حملہ آور جلسہ گاہ میں داخل نہیں ہو سکا۔ خودکش حملہ آور نے مولانا فضل الرحمٰن سے پیچھے والی گاڑی پر چڑھنے کی کوشش کی۔ مولانا کو اپنی ذاتی بلٹ پروف گاڑی دی تھی۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق دھماکے میں دو افراد جاں بحق ہوگئے۔ واقعہ کے بعد علاقے کو ایف سی پولیس اور دیگر حکام نے گھیرے میں لے لیا۔ قریبی بازار اور دکانیں فوری طور پر بند کردی گئیں۔ دھماکے کے بعد نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ بلٹ پروف گاڑی میں جیسے ہی جلسہ گاہ سے باہر نکلا تو میری گاڑی کیساتھ کوئی چیز ٹکرائی جس سے زور دار دھماکہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیریت سے ہوں انہوںنے کہاکہ مجھ پر حملہ کرنے والوں میں کون ملوث ہے مجھے کچھ معلوم نہیں نہ سکیورٹی ایجنسی نے مجھے کبھی بتایا ہے نہ اس سے پہلے کوئی اشارہ دیا ہے مجھ پر حملہ اس لئے کیا گیا کہ شاید میں امریکہ کے خلاف زیادہ بولتا ہوں انہوں نے کہاکہ میں حملے میں ٹارگٹ تھا۔ گاڑی جو بلٹ پروف تھی مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف ¾ قائم علی شاہ ¾ پرویز خٹک ¾ چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری ¾ خورشید شاہ ¾ چودھری نثار، پرویز رشید ¾ سعد رفیق ¾ خواجہ آصف ¾ عابد شیر علی ¾ آصف علی زرداری ¾ بلاول بھٹو، الطاف حسین، اسفند یار ولی ¾ جماعت اسلامی کے سراج الحق ¾ لیاقت بلوچ، صدر آزاد کشمیر سردار محمد یعقوب ¾ وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید، گورنر پنجاب، ساجد میر، شجاعت، پرویز الہٰی، طاہر القادری سمیت متعدد سیاسی ومذہبی رہنماﺅں نے دھماکے کی شدید مذمت کی۔کالعدم تنظیم جنداللہ نے کوئٹہ فائرنگ اور مولانا فضل الرحمان پر ہونےوالے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی،کالعدم تنظیم کی جانب سے ایک موبائل پیغام میں کہا گیا کہ مولانا فضل الرحمان جمہوریت پسند شخص ہیں اس لئے ان کو نشانہ بنایا گیا۔ جے یو آئی ف کے ترجمان حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد مولانا فضل الرحمان خیریت سے ہیں۔ ترجمان کے مطابق دھماکے کے بعد بھگدڑ نہیں مچی۔ دھماکہ کی جگہ سے خودکش حملہ آور کے ہاتھ پا¶ں اور دیگر جسمانی اعضا مل گئے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق رضا کاروں نے بتایا ہے کہ 18 سے 20 سال کا نوجوان خودکش حملہ آور تھا جس کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی۔ جب مولانا فضل الرحمٰن کی گاڑی پہنچی تو اس نے گاڑی کے آگے آنے کی کوشش کی۔ رضاکاروں نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے خود کو دھماکہ سے اڑا دیا۔ جے یو آئی نے آج مولانا فضل الرحمن پر خود کش حملے کے خلاف یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا ہے۔ مولانا محمد امجد خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے کہا اللہ کا شکر ہے کہ مولانا فضل الرحمن سمیت تمام قیادت اس دھماکے سے محفوظ رہی۔ خیبر کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے کارکنوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس دھماکے میں قیادت کے محفوظ رہنے پر دو نفل شکرانے کے ادا کریں گے۔ دریں اثناءوزیراعظم نوازشریف‘ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمٰن کو فون کر کے ان کی خیریت دریافت کی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے مولانا فضل الرحمٰن کو بلٹ پروف گاڑی دی تھی ہزارہ برادری کو گذشتہ رات دھمکیاں ملی تھیں لیکن انہوں نے ہمیں نہیں بتایا۔ حملے سے متعلق ہمارے پاس کوئی خفیہ اطلاع نہیں تھی۔ میں ذمہ دار شخص ہوں بلیم گیم میں نہیں پڑوں گا۔ علاوہ ازیں کوئٹہ میں بم دھماکے کے بعد لاہور میں دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی جبکہ داخلی و خارجی راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔ حساس مقامات، عبادت گاہوں، ریلوے سٹیشن، ائر پورٹ، سرکاری عمارات، امام بارگاہوں پر سکیورٹی سخت کر دی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سیاسی شخصیات، مذہبی لیڈروں کی بھی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا۔ قبل ازیں مفتی محمود کانفرنس سے خطاب کرتے مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے اسلام آباد میں دھرنے کے نام پر فحاشی اور عریانی کے وہ مناظر ہیں جو مغربی تہذیب کی نمائندگی کررہے ہیں جب کہ تاریخ کا طویل ترین دھرنا دینے کے دعویدار سن لیں کہ دھرنے دن میں دیئے جاتے ہیں رات کو دھرنے نہیں بلکہ مجرے ہوتے ہیں اس لئے اسلام آباد میں تاریخ کا طویل ترین مجرا سجانے والوں کو شرم آنی چاہئے، دھرنے والے یہ لوگ ہماری نئی نسل سے حیا اور نوجوان لڑکیوں سے سروں سے دوپٹا چھین کر انہیں عریانی کی طرف لے جارہے ہیں، امریکہ اور مغرب دنیا کی سیاست پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کوئٹہ میں ہمارے جلسے کو سبوتاژ کرنے کے لیے خون کی ہولی کھیلی گئی لیکن جمعیت کے کارکنوں کو موت سے نہیں ڈرایا جاسکتا، عوام نے بڑی تعداد میں جلسے میں شرکت کرکے اسے ناکام کرنے کی سازش کو ہی ناکام بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ مغرب پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانا چاہتا ہے بلوچستان اور خیبر پی کے میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔
کوئٹہ+ لاہور (نیوز ایجنسیاں+ خصوصی رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار) کوئٹہ میں بس پر فائرنگ کر کے 9 مسافروں کو قتل کر دیا گیا جبکہ قمبرانی روڈ پر ایف سی کے قافلے پر بم حملے میں تین افراد جاں بحق، 12 زخمی ہو گئے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا۔ ہزار گنجی میں سبزی منڈی کے قریب 2 موٹر سائیکلوں پر سوار 3نامعلوم افراد نے بس پر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ صدر ممنون، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک، شہباز شریف اور دیگر سیاسی و مذہبی رہنماﺅں نے فائرنگ کے واقعہ کی مذمت کی ہے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے آج شہر میں شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی کال بھی دے دی ہے جبکہ شیعہ علماءکونسل، مجلس وحدت المسلمین اور آل بلوچستان شیعہ کانفرنس نے صوبے میں 3روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ قائد ملت جعفریہ سید ساجد علی نقوی نے بلوچستان حکومت سے مطالبہ کہ واقعہ میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ دوسری جانب کوئٹہ کے علاقے قمبرانی روڈ پر ایف سی کی گاڑیوں پر ریموٹ کنٹرول بم حملے میں تین افراد جاں بحق ہو گئے۔ ایف سی کے اہلکار ہزار گنجی کے واقعہ کے بعد سرچ آپریشن میں مصروف تھے کہ بشیر چوک کے قریب سڑک کنارے نامعلوم افراد کی جانب سے بارود سے بھری موٹر سائیکل میں دھماکہ ہو گیا، 2 اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق دھماکے میں 6سے آٹھ کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا ہے۔ بلوچستان بار نے دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات کے خلاف آج عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا۔ امیر جماعة الدعوة حافظ محمد سعید نے کوئٹہ میں جمعیت علماءاسلام (ف) کے جلسہ کے قریب ہونےو الے بم دھماکہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام دشمن قوتیں بم دھماکوں اور دہشت گردی کے ذریعہ ملک میںفتنہ و فساد برپا اور افراتفری پھیلانا چاہتی ہیں۔ آن لائن کے مطابق عزےز، عاشور، علی شاہ، سفر علی، غلام حسےن، اقبال علی، عبدالاحد، اسد موقع پر جاںبحق ہو گئے جبکہ دو افراد حاجی شاہنواز جتوئی اور محمد سلےم شدےد زخمی ہو گئے۔ عےنی شاہدےن کا کہنا ہے کہ واقعہ کے بعد لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور حملہ آوروں نے نقاب پہن رکھے تھے۔
کوئٹہ/ فائرنگ