آئین کا ہر حال میں تحفظ ہو گا‘ عوام کو انصاف دیتے رہینگے: چیف جسٹس
اسلام آباد (اے پی پی+ نوائے وقت رپورٹ+ نیٹ نیوز) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ عدلیہ نے آئین شکنی کی روایت کو توڑکر قانون کی حکمرانی سے متعلق اپنے سماجی کردار کو وسیع کر دیا ہے جس سے عوام میں جمہوری اقدار اور بنیادی حقوق کے بارے میں شعور بڑھ گیا ہے۔ چاہے جتنے بھی چیلنج درپیش ہوں عوام کو انصاف فراہم کرتے رہیں گے آئین نے سپریم کورٹ کو مقننہ اور انتظامیہ کے اقدامات پر نظر رکھنے کا اختیار دیا ہے مجھے فخر ہے کہ عدلیہ اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، کانفرنس کے انعقاد سے نئے تصورات اور خیالات سامنے آتے ہیں، بعض اوقات اداروں کی کمزوری کے باعث انتظامی فیصلے بھی عدلیہ کو کرنا پڑتے ہیں۔ دو روزہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ جوڈیشل کانفرنس مستقل حیثیت اختیار کر چکی ہے جس کے انعقاد سے تین بڑے مقاصد حاصل ہو رہے ہیں جو انصاف کی فراہمی کے لئے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں پہلا مقصد یہ ہے کہ یہ کانفرنس وکلاء اور ججوں کے لئے قابل قدر پلیٹ فارم بن گیا ہے جہاں انصاف کی فراہمی سے وابستہ افراد کو مختلف معاملات کے حوالے سے ایک دوسرے کے نکتہ نظر سے آگاہی ملتی ہے۔ اس کانفرنس کی بدولت بنچ اور بار کے مابین باہمی روابط اور مفاہمت کو فروغ ملنے سے ملک بھر کی وکلاء برادری میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے جس سے نئے تصورات جنم لیتے ہیں۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے تعاون سے سپریم کورٹ اس اہم ترین مقصد کے حصول کی طرف پیشرفت پر نازاں ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آ پڑی ہے۔ پچھلے چند سال میں درپیش چیلنجز کے باعث عدلیہ کی فعالیت بڑھنے سے اس کے وقار میں بھی اضافہ ہوا ہے وہ ریاست کے ایک قابل قدر ستون کے طور پر سامنے آئی۔ اعلیٰ عدلیہ کی اجتماعی کوششوں کی بدولت 2007ء کے بعد یہ عدالت رسمی آئینی عدالت سے انسانی حقوق کی علمبردار سپریم کورٹ کی شکل میں سامنے آئی ہے جس کے بعد عدالت نے متعدد بار واضح کیا کہ آئین کی تشریح قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے عوامی مفاد اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے ہونی چاہئے اس کا اظہار عدالتی نغمے ’’انصاف سب کے لئے‘‘ میں بھی کیا گیا ہے۔ 2007ء کے بعد اجتماعی دانش نے ہمیں پانچ بہترین اوصاف سے آشنا کیا ہے محض لفظی آئینی تحفظ کی بنیاد پر رسمی آئینی جواز سے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ ممکن نہیں۔ درحقیقت عوام کی نظروں میں سپریم کورٹ کا مقام انصاف کے اقدار کا حقیقی نگہبان ہے۔ دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ کو صرف آئینی طور پر ہی نہیں بلکہ بطور ادارہ مقننہ اور انتظامیہ کے اقدامات پر نظر رکھنے کا اختیار ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ عدلیہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہی ہے۔ تیسرا یہ کہ سپریم کورٹ کے نظرثانی کے اختیار کو مختلف شعبوں تک توسیع دی گئی جو ماضی میں نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نہ صرف آئینی جمہوریت کے تحفظ اور آئین کی پامالی کو روکنے کے لئے آئینی ذمہ داری پوری کر رہی ہے بلکہ اداروں کے درمیان غیر مرئی تنائو کا خاتمہ بھی کر سکتی ہے۔ پانچواں یہ کہ عدلیہ نے ایسی اقدار کو مستحکم بنایا جن سے جمہوریت کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری رجحانات کا بھی سد باب ہو سکے یہ اس لئے ممکن ہوا ہے کہ ہمارا آئین موثر جمہوریت کا تصور دیتا ہے، اگر عدلیہ کردار درست طور پر ادا نہ کرے تو یہ جمہوریت محض رسمی جمہوریت رہ جاتی ہے جہاں فرد کو حقوق نہ ملیں۔ انتظامی فعالیت کے فقدان کے باعث عوام نے بڑی تعداد میں عدالتوں سے رجوع کیا جس کی وجہ سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھا ہے۔ عدلیہ کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر ہمیں آئین کے آرٹیکل 199کی حدود کا بھی جائزہ لینا ہو گا جس کے تحت ہائی کورٹ کو اختیارات حاصل ہیں جبکہ آئین کا آرٹیکل 184(3)عوامی معاملات میں سپریم کورٹ کو براہ راست نوٹس لینے کا اختیار دیتا ہے ٗ اگر ایسا نہ کیا گیا تو جھوٹے مقدمات کی لائن لگ جائے گی۔ ہمیں گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی کے درمیان علامتی تعلق کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا۔ سپریم کورٹ نے حالیہ برسوں میں ایسے لاتعداد مقدمات بھی سنے جو انتہائی حساس نوعیت کے تھے مثلاً کوئٹہ اور کراچی میں امن امان کی صورتحال سے متعلق مقدمات ٗ جن میں سپریم کورٹ کے سامنے براہ راست انتظامی غلطیاں سامنے آئیں ٗ تاہم سپریم کورٹ کی وجہ سے وہاں کے حالات اور ان کی بنیادی وجوہا ت جاننے میں بھی مدد ملی ہے۔ آئین سے ہٹ کر معمولی قدم بھی انصاف کے نظام میں دراڑیں ڈال سکتا ہے جس کے اثرات مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق مقدمات کے فیصلے صرف وقتی نہیں بلکہ آئندہ کے لئے بھی موثر ثابت ہوں۔ آئین کاآرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار دیتا ہے اور یہ اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ عدالت عظمیٰ کسی درخواست یا اطلاع کی روشنی میںسماجی یا روایتی وجوہات کی بناء پر سپریم کورٹ تک رسائی نہ رکھنے والے افراد تک پہنچ سکتی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے اسی سال چترال کے نواحی علاقہ وادی کیلاش کے لوگوں کو ملنے والی دھمکیوں سے متعلق از خود نوٹس کیس کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ انتہائی شریف اور پرامن ہیں۔ وہ انصاف کے حصول کے لئے عدالتوں کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔ اگر اُن کو ملنے والی دھمکیوں پر سپریم کورٹ آنکھیں بند کر لیتی تو وہ مزید تنہائی کا شکار ہو جاتے۔ نبی کریم ؐ نے بھی بلا رنگ ونسل ومذہب تمام انسانوں کو برابر قرار دیا ہے انہی اصولوں کے پیش نظرسپریم کورٹ نے پشاورمیںچرچ پرحملے اوراقلیتوں کے حوالے سے دیگر مسائل کانوٹس لیا جونہ صرف انتہائی حساس تھے بلکہ اس سے تحمل وبرداشت کے حوالے سے بطور ریاست پاکستان کے مستقبل کی صورت گری بھی واضح ہوتی ہے۔ انصاف کی فراہمی کے لئے عدلیہ کی کوئی بھی کوشش وکلاء کی فعال شمولیت اور بامقصد تعاون کے بغیر ادھوری ہے۔ ہمیں فیصلے کرتے وقت سائلین کے رنگ ٗ نسل ٗ مذہب ٗ سماجی و معاشی مرتبہ ٗ ذات برادری اور قومیت سے بالا تر ہوکر محض برابری کو دیکھنا چاہئے۔ وکلاء نے 2007ء میں عدلیہ کی آزادی کے لئے عملی یکجہتی مظاہرہ کیا اور اب وقت آگیاہے کہ وہ قانون کے ہتھیار سے لیس ہوکر اسی جوش و جذبے کو عدالتوں کے اندر بھی لے کر آئیں۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ عدلیہ کو ملک میں قانون کے موثر نفاذ کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ عدالتیں اپنے فیصلوں کے ذریعے ملک میں اعتماد اور برداشت کی فضا کو فروغ دے سکتی ہیں۔ عدلیہ ہی اپنے فیصلوں کے ذریعے ملک میں بسنے والی اقلیتوں اور کمزور طبقات میںاحساس تحفظ پیدا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے مارٹن لوتھر کے ایک قول کا حوالہ بھی دیاکہ اخلاقیات کے حوالے سے تو قانون سازی نہیں کی جاسکتی لیکن رویوں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ عدالتی فیصلہ شاید دل تو نہیں بدل سکتا مگر ظالموں کا راستہ روک سکتا ہے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ عدلیہ نے آئین سے انحراف کے دروازے بند کر دئیے ہیں گڈ گورننس کے لئے ہر ادارے کا آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ضروری ہے۔ آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے۔ عدلیہ ہر حال میں آئین کا تحفظ کرے گی، موجودہ حالات میں قانون کی بالادستی کے لئے اسے اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ فخر ہے کہ سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ ترقی پذیر جمہوریتوں کی طرح پاکستان کو بھی دہشتگردی، نسل پرستی اور لسانی تقسیم جیسی برائیوں کا سامنا ہے۔ موجودہ حالات میں عدلیہ کو قانون کی بالادستی کے لئے فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ 3 سالہ طویل اور کٹھن جدوجہد کے بعد عدلیہ نے آزادی حاصل کی ہے۔ عدلیہ کی جانب سے لوگوں کو انصاف پہنچانے کی کوشش میں وکلا سڑکوں پر آئے یہی وجہ ہے کہ انصاف کی فراہمی کیلئے وکلا کا کردار اہم ہے۔ تمام ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں تو گڈ گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ کانفرنس میں ترکی، نائیجیریا، لیبیا، امریکہ، بھارت اور سری لنکا سمیت کئی ممالک کے وفود شریک ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکلا 2007ء میں عدلیہ کی آزادی کیلئے سڑکوں پر آئے۔ اس سے بنچ اور بار کو قریب آنے کا موقع ملے گا۔ عدلیہ نے آئین سے انحراف کے دروازے بند کر دئیے ہیں، شہریوں کے حقوق کا تحفظ عدالتوں کی اولین ذمہ داری ہے، لاپتہ افراد کے معاملے پر بھی عدلیہ نے نوٹس لیا، آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، کانفرنس کے انعقاد سے نئے تصورات اور خیالات سامنے آتے ہیں، بعض اوقات اداروں کی کمزوری کے باعث انتظامی فیصلے بھی عدلیہ کو کرنا پڑتے ہیں۔