برطانوی پارلیمنٹرین کیری کا دورہ، سانحہ تھر اور تعلیمی تھر!
کتنے ہی دنوں سے ”طالبان ۔ طالبان“ چل رہا ہے تاہم آج ”طلبہ طلبہ“ کا قلم اور کالم ہے۔ ہا! کون یہ سمجھتا ہے کہ ‘ وقت پر طلبہ طلبہ کیا ہوتا تو آج ”طالبان۔ طالبان“ ہوتا ہی کیوں۔ حکومت اپنی ہو یا بے گانی‘ آمریت ہو کہ جمہوریت‘ لوٹنے والے ہوں یا گھسیٹنے والے‘ ہر صورت میں تعلیم ہماری آخری اہمیت بلکہ سوتیلی اہمیت ہے۔ ہمیں کوئی پرواہ نہیں کہ تعلیم میں عدم دلچسپی سے اس دنیا میں نتائج بھگتنے پڑیں یا آخرت میں ۔ قارئین! مجھے نہیں معلوم اس ”غیر سیاسی“ بلکہ ضرورت سے زیادہ سیاسی کالم کو آپ خاطر میں لائیں۔ یا نہ لائیں۔ میں تو فقط اتنا جانتا ہوں کہ جن اقوام کے قائدین میٹھی نیند سوئیں اور جن کی قیادت آسائشوں سے شیر و شکر ہو۔ ان اقوام میں تعلیم و تحقیق کی کوئی اہمیت ہوتی ہے نہ کسی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اسی لئے تو اپنا یہ حال ہے کہ نہ صحرا تھر کی بھوک پیاس بجھ رہی ہے اور نہ تعلیم و تحقیق کا میٹھا پھل ہی باغ میں میسر ہے۔ اندر بھی ٹوٹا ہوا ہے اور ماحول بھی مرثیہ گو شاید ناصر کاظمی کی سی کیفیت ہو....
دل تو میرا اُداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
سندھ کے تھر کے باسیوں اور ”تعلیمی تھر “ کے لوگوں کا اللہ ہی حافظ۔ حکمران اب طالبان‘ جرنیلوں‘ ججوں‘ بڑے صنعتکاروں‘ وڈیرں‘ نوابوں سلطانوں اور سیاستدانوں کی سنے یا تھروں کے بے جان اور بے دست و پا لوگوں کی ۔آخر حکومت اپنے ضمنی الیکشن بچائے یا چیخ و پکار کے شور کی آلودگی سے بیزار ہو! ہم دیوانے بھی کتنا عجیب سمجھتے اور سوچتے ہیں ۔یہ آئین کی دفعہ 38 تھر کے لوگوں کےلئے یا تعلیمی باسیوں کے لئے تھوڑی ہے۔ یہ آئین کی دفعات 62 اور 63 کا تعلق حقیقت سے کہاں ہے یہ تو ”عقیدت“ سے ہے۔ قارئین محترم! چلیں تھوڑی دیر اچھی اچھی باتیں کر لیتے ہیں۔ بڑی باتیں پھر کالم کے آخر میں تاکہ سینڈ وچ کے اندر تو کڑواہٹ نہ ہو.... جب کبھی ملتان کا چکر لگے تو اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد مختار بڑی محبت سے یونیورسٹی کا چکر لگانے کی بھی دعوت دیتے ہیں۔ اس دفعہ ماحول قابل تعریف اور قابل بیان اس طرح ٹھہرا کہ‘ گورنرپنجاب چودھری محمد سرور کی خصوصی تعلیم دوستی سے برطانیہ کے ایک سابق پارلیمنٹرین کیری پولرڈ (ایم پی) جن کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے وہ پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا بھی دورہ کیا۔ کیری پولرڈ ان گوروں میں شامل ہے جو جنگوں کے بجائے امن کے حامی ہیں۔ ہاﺅسنگ ویلفیئر کا وسیع تجربہ رکھنے کے ساتھ ساتھ کیری پولرڈ کئی انسان دوست اور تعلیم دوست تحریکوں کا حصہ بھی ہے۔ وہ خواہ مخواہ نفرت یا خواہ مخواہ محبت کرنے والوں میں سے نہیں پاکستان کی عالمی اہمیت سے بھی وہ بخوبی آگاہ ہے۔
بہر حال گورنر پنجاب کا یہ طریقہ کار بہت اچھا لگا ہے کہ ‘ وہ سیاست کی دنیا سے ہٹ کر تعلیمات کی دنیا میں بھی سانس لیتے ہیں۔ اللہ کرے کبھی کہیں ان کی ملاقات سابق گورنر جنرل (ر) خالد مقبول سے بھی ہو جائے۔ خالد مقبول حقیقت میں ”گورنر تعلیم“ زیادہ اور سیاست کے گورنر کم تھے۔ بحیثیت چانسلر چودھری سرور کی اٹھان اور عمدہ اٹھان کے بھی ہم منتظر ہیں۔ چلتے چلتے اتنا بتا دیں کہ ‘ گورنر پنجاب اگر گورنر ہاﺅس میں چودھریوں اوروڈیروں یا ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی ”انٹرئین“ کرتے رہے تو تعلیم بھی سیاست کی نظر ہو جائے گی۔ یہ ضروری ہے کہ ‘ گورنر پنجاب انپے سبھی وائس چانسلروں کو سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ‘ دیگر تعلیم بیزار بیورو کریسی‘ سیاستدانوں اور گورنر ہاﺅس کی بیورو کریسی سے دور رکھیں‘ تو وہ خالد مقبول کے تمام ریکارڈ توڑ سکیں گے۔ پاکستان میں اب رواج نہیں ہے کہ کوئی گورنر پاپولر سیاستدان بن سکے۔ تازہ ترین آئینی ترامیم کے بعد اب ادوار وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے ہیں۔ لہذا گورنر صاحب سیاستدانوں کے ہتھے چڑھنے کے بجائے براہ راست وائس چانسلروں کو اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ اس میں برکت ہے اور تعلیمی ترقی بھی گورنر چودھری سرور ہی نہیں دیگر صوبوں کے گورنروں کی بقا‘ حیا اور سلامتی اسی میں ہے کہ وہ چانسلر بن کر اپنا نام پیدا کریں۔ تعلیم و تحقیق میں بہتری اور درس گاہوں کو دانش گاہیں بنا کر ہی طالب علموں کو طالبان پر غالب کیا جا سکتا ہے تعلیم ہی جنت کے راستوں کا نشان اور منزل کی ضمانت ہے۔ تعلیم ہی خود شناسی تک لے جاتی ہے اور خود شناسی خدا شناسی سے آشنا کرتی ہے۔ بہر حال اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے دلکش کیمپس میں کیری کی باتیں اچھی لگیں۔ بغیر کسی جعلی منصوبہ بندی کے وائس چانسلر نے دوران دورہ ایک کلاس روم میں کیری پولرڈ کو طلبہ و طالبات کے روبرو کر دیا۔ چشم فلک گواہ ہے کہ برطانوی سیاستدانوں میں ایک سیکشن آفیسر والا بھی نخرہ دکھائی نہ دیا کوئی وزیر یا سیکرٹری ہونا تو دور کی بات ۔آپس کی بات ہے کہ‘ طلبا کی نسبت طالبات کے سوال و جواب زیادہ جاندار تھے۔ اچھا لگا کہ ڈاکٹر مختار نے جعلی روایات ور رسم و رواج توڑ کر تعلیمی انداز میں برطانوی معزز مہمان اور طلبہ کو روبرو کر دیا۔ یہ بھی اچھا لگا کہ گورنر پنجاب نے کیری کا اور قوم کا وقت گورنر ہاﺅس یا ضیافتوں میں ضائع کرنے کے بجائے یونیورسٹی میں پہنچ کر سود مند بنایا۔ کیری نے بطور خاص راقم سے کہا کہ‘ آپ کے نوجوان بہت باصلاحیت اور بہت ذہین ہیں آپ کی درسگاہیں محنت کراتی ہیں۔ اس پر توجہ دیں پاکستان کا مستقبل تابندہ ہوگا۔ اس موقع پر ڈاکٹر مختار کی یہ بات اچھی لگی ۔کہ پروٹوکول کا حصار تھا نہ بے جا گہما گہمی صرف وی سی صاحب‘ راقم اور کیری پولرڈ تھے جہاں جی چاہا مہمان رکا‘ جہاں اس نے چاہا طلبہ سے بات کی ،لائبریری وہ اپنی مرضی سے گیا‘ساتھ والی کلاس ہی اسے دکھا دی گئی‘ لان سے لیبارٹریز تک وہ راستے میں رک رک کر خود طلبہ سے گفت و شنید کرتا۔ جان کی امان پاتے ہوئے‘ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف اور ”وزیراعلیٰ پاکستان“ میاں محمد شہبازشریف سے استدعا ہے کہ سب سے زیادہ تاریخی اور اہم یونیورسٹی کے پہلے کالج اور کامرس کی تعلیم کو بچا لیں۔ ہم کچھ کہیں گے تو شکایت ہو گی گورنر صاحب ہی خود دیکھ لیں۔ مستقل اساتذہ کے بجائے عارضی اور کنٹریکٹ اساتذہ کو محض اس لئے ٹھونس ٹھونس کر بھرا ہوا کہ‘ کچھ سیاستدان اور کچھ دوست خوش ہو جائیں تعلیم جائے بھاڑ میں 1927ءمیں قائم ہونے والے پہلے کالج پنجاب یونیورسٹی کو جانے والے مقام کو واپس لانا وفاقی وزیر اسحاق ڈار‘ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق‘ سنیٹر جہانگیر بدر اور مشیر وزیراعظم سرتاج عزیز کا بھی فرض بنتا ہے کیونکہ یہ درس گاہ ان کی مادر علمی ہے۔ سابق بھارتی وزیراعظم گجرال بھی یہاں سے پڑھے ہوئے ہیں گویا کامرس کی دنیا کا یہ اہم ترین کالج بے اصولی کے جس چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ اسے نجات دلانے کی ضرورت ہے وی سی جامعہ پنجاب جس کےلئے جتنے بھی پیارے ہوں‘ ان سے پوچھنا تو چاہئے کہ ”بابا!نہ تقرریاں بروقت‘ نہ اشتہارات کا تکلف‘ نہ تعلیم کی حساسیت کا احساس۔ آخر ماجرا کیا ہے؟ ”معیشت اگر قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہے تو کامرس کی تعلیم بے راہ روی کا شکار کیوں؟ کامرس کی تعلیم ریگولر اور ٹریننگ کے ساتھ ہی سود مند ہو سکتی ہے جیساکہ میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم۔ ڈگری اور پوسٹ گریجوایٹ سطح پر تربیت سازی صرف اساتذہ کی نگرانی سے ممکن ہے گھر بیٹھ کر داخلہ بھیج کر اور اوکھے سوکھے امتحان پاس کر لینے سے نہیں۔ یقین کیجئے! طالبان کی سی بے راہ روی ہو یا تھر کے قحط اور بھوک پیاس کا خاتمہ ان سب کےلئے تعلیم و تحقیق پر توجہ ضروری ہے۔ جمہوریت کو توپ کے گولے اور بوٹ سے لے کر آمرانہ روش تک سے بچانے کےلئے بھی صرف تعلیم ہی کا ہتھیار کارگر ہے۔ آگے حکمرانوں کی مرضی رہی ہماری بات تو ”بنا کے فقیروں کا ہم بھیس غالب.... تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں!!!“