مسعود جنجوعہ ڈبل گیم کرتا تھا‘ القاعدہ نے مار دیا: پنجاب حکومت‘ قتل کی وجہ سے مقدمہ نمٹانے کی استدعا مسترد

اسلام آباد (ایجنسیاں + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے حکومت پنجاب کی جانب سے آمنہ مسعود جنجوعہ کے لاپتہ شوہر مسعود جنجوعہ کو القاعدہ اور امریکہ کا ڈبل ایجنٹ ہونے پر مار دئیے جانے اور مقدمہ نمٹانے کی استدعا سختی کیساتھ مسترد کردی اور کہا کہ اگر آئی ایس آئی کو مسعود جنجوعہ اور فیصل فراز بارے ایک ایک چیز  کی معلومات حاصل ہیں تو وہ یہ کیوں نہیں جانتی کہ مسعود جنجوعہ کی نعش کہاں ہے؟ اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرواکر یہ نعش ان کی بیوی کے حوالے کی جائے۔ عدالت نے حساس اداروں کے سابق اعلی افسران کرنل (ر) حبیب اللہ‘ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شفقات احمد اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم تاج سے بھی 48 گھنٹوں میں بیانات حلفی طلب کئے ہیں۔ علاوہ ازیں عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ کا پہلا ایڈیشن بھی طلب کیا ہے جس میں سابق آرمی  چیف نے یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو امریکہ کے حوالے بھی کیا گیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حساس اداروں کو بتانا ہوگا کہ مسعود جنجوعہ کو کس نے کب اور کہاں قتل کیا اور اب اس کی لاش کہاں ہے؟ حساس ادارے کے سابق سربراہ نصرت نعیم کا بیان حلفی کوئی آسمانی صحیفہ نہیں کہ اسے من وعن تسلیم کرلیا جائے۔ پنجاب حکومت اگر سمجھتی ہے کہ آئی ایس آئی اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے تو عدالت کو بتا دے جبکہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رزاق اے مرزا نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ مسعود جنجوعہ 2005ء میں مارے گئے تھے‘ وہ امریکہ اور القاعدہ کے ڈبل ایجنٹ تھے‘ وہ ہمارے حساس اداروں کو بھی مطلوب تھے‘ القاعدہ نے ڈبل ایجنٹ ہونے کی وجہ سے مسعود جنجوعہ کو مار دیا تھا۔ ڈی پی او ہارون جوئیہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عمران منیر کا بیان حاصل کرنے کیلئے وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشن برائے پناہ گزین ( یو این ایچ سی آر) کو خط لکھ دیا ہے اس حوالے سے تاحال جواب موصول نہیں ہوا۔ اس پر عدالت نے کہا کہ یہ سب کچھ تو آپ پہلے بھی بتاسکتے تھے۔ جس طرح سے پولیس کام کررہی ہے اس طرح سے تو تفتیش کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر بھی پیش ہوئے تو جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے لئے ایک ہی مسئلہ ہے کہ ہر بار کہہ کہہ کر تھک گئے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ رزاق نے بتایا کہ میں کچھ حقائق بتانا چاہتا ہوں۔ کمیشن نے کیس بند کردیا ہے۔ بریگیڈیئر (ر) نے حلف پر بیان کمیشن کو دیا تھا۔ ڈاکٹر عمران منیر کے دو بیانات موجود ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم کمشن کے پاس کیس کو دوبارہ کھول دیتے ہیں۔ رزاق نے کہا کہ حساس ادارے کہتے ہیں کہ مسعود جنجوعہ اب زندہ نہیں ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر یہ بندہ اس دنیا میں ہے یا نہیں تو آپ کو بتانا پڑے گا کہ یہ کہاں ہیں؟۔ رزاق نے کہا کہ 2005ء کا معاملہ ہے اگر کسی ایجنسی کی تحویل میں ہوتا تو اب تک پتہ چل چکا ہوتا۔ جسٹس جواد نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ نے سابق صدر کی ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ نامی کتاب میں دئیے گئے اقتباسات کے تحت کوئی تحقیقات کی ہیں جس میں پیسے لے کر لوگ امریکہ کے حوالے کئے گئے تھے۔ دوسری اشاعت میں یہ سب چیزیں نکال دی گئی تھیں۔ آٹھ سال سے آمنہ آرہی ہیں ان کو کیا جواب دیں۔ طارق کھوکھر نے کہا کہ میں نے متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا ہے۔ رزاق مرزا نے کہا کہ نصرت نعیم سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کمشن کے پاس اپنا جواب داخل کرایا تھا جس میں انہوں نے بتایا کہ حساس اداروں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تو ٹھوس شہادت ہے کہ یہ ہماری ایجنسیوں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ اس کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ پنجاب کے لاء آفیسر نے بیان پڑھتے ہوئے مزید کہا کہ طارق نامی امریکی ایجنٹ کیساتھ ان کے تعلقات تھے جس نے مسعود جنجوعہ اور فیصل فراز کے ذریعے لیپ ٹاپ میں چپس انسٹال کرکے القاعدہ کو بھجوائے تھے جس پر انہیں مار دیا گیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اتنا کچھ آپ کو پتہ ہے تو اس کی لاش کہاں ہے؟  کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حساس ادارہ آپ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ آپ کی ہر بات صحیفہ نہیں ہے کہ جسے تسلیم کرلیا جائے۔ جنرل صاحب کو ویگن تک کا پتہ ہے مگر یہ پتہ نہیں کہ اسے کہاں دفنایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ  میں شیخوپورہ   سے لاپتہ عتیق  الرحمان کیس میں پولیس  نے مشترکہ تحقیقاتی   ٹیم کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے  اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ  عتیق الرحمان کو زبردستی  لاپتہ کیا گیا ہے  اور اس حوالے سے  معاملہ لاپتہ افراد  کے مقدمات کی سماعت کرنے والے کمشن کو ارسال  کردیا گیا ہے   جو دو ہفتے   میں فیصلہ کردیں گے۔ دوسری جانب ذرائع کے مطابق ذرائع کے مطابق عتیق الرحمان گھر پہنچ گئے ہیں۔