دہشت گردی پر قابو پانا مشکل نہیں ‘ ہم دنیا کو اپنی فوج کے بارے میں کیا تاثر دینا چاہتے ہیں: چیف جسٹس

دہشت گردی پر قابو پانا مشکل نہیں ‘ ہم دنیا کو اپنی فوج کے بارے میں کیا تاثر دینا چاہتے ہیں: چیف جسٹس

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + آئی این پی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ دہشتگردی ایسا معاملہ نہیں جس پر قابو نہ پایا جاسکے ہماری سوچ ملک اور قوم کے مفاد میں ہونی چاہیے‘ حالات معمول کے مطابق نہیں دہشتگردی کا سامنا ہے‘ تمام علاقوں کا تحفظ یقینی بنائیں گے‘سپریم کورٹ بمباری روکنے کا حکم نہیں دے سکتی‘ صرف قانون کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ آئین کے منافی تو نہیں‘جنرل شاہد عزیز کی کتاب کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اس میں کتنی صداقت ہے ‘ ہم دنیا میں اپنی فوج کے بارے میں کیا تاثر دے رہے ہیں؟‘ سپریم کورٹ نے اڈیالہ جیل کیس میں درخواست گزار کو کراچی سے متعلق 3 روز میں شواہد جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 3 اپریل تک ملتوی کر دی‘ عدالت نے مدعی کے وکیل کی جانب سے درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس گلزار پر مشتمل 3 رکنی کیس نے اڈیالہ جیل سے لاپتہ قیدیوں کے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری سوچ ملک اور قوم کے مفاد میں ہونی چاہیے۔ سینیٹر پروفیسر ابراہیم کے وکیل غلام نبی نے جنرل شاہد عزیز کی کتاب عدالت میں پیش کی اور کہا کہ کتاب میں بہت سے انکشافات کئے گئے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ مشرف کو مسلمانوں کے قاتل کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دنیا میں اپنی فوج کے بارے میں کیا تاثر دے رہے ہیں۔ دہشتگردی ایسا معاملہ نہیں جس پر قابو نہ پایا جاسکے ہماری سوچ ملک اور قوم کے مفاد میں ہونی چاہیے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ بہت سے لوگ حلوہ کھانے کے وقت کھا لیتے ہیں بعد میں توبہ توبہ کرتے ہیں۔ مسئلہ قانون کا نہیں اس پر عملدرآمد ہے۔ چیف جسٹس نے جنرل شاہد عزیز کی کتاب کے حوالے سے کہا کہ ہمیں علم نہیں کتاب کس حد تک قابل اعتماد ہے اور اس کی کیا صداقت ہے۔کیا آپ چاہتے ہیں ایسی کتابیں لکھ کر امن و امان خراب کیا جائے۔ سینیٹر ابراہیم کے وکیل نے ڈرون حملوں سے ہلاک ہونے والوں کی تصاویر عدالت میں پیش کیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت ڈرون حملوں کا مقدمہ ہمارے پاس نہیں جو مقدمہ ہمارے پاس ہے ہم نے اس کا فیصلہ کرنا ہے وکیل نے ڈرامائی انداز میں اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ سینیٹر ابراہیم کے وکیل غلام نبی نے عدالت کو بتایا کہ عوام کو فوج اور طالبان دونوں سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ فاٹا مین لوگوں کو قید رکھنے کا قانون آئین کے منافی ہے۔ ایک ایک رات میں پچاس پچاس نعشیں ملتی ر ہی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دہشتگردی ایسا معاملہ نہیں کہ قابو نہ پایا جا سکے۔ غلام نبی نے عدالت کو بتایا کرا چی کے متعلق باتیں کیں تو سندھ کے وکیل نے کہا کہ اب کراچی تشریف نہ لانا۔ کراچی میں ایک چھوٹا سا محلہ خالی نہیں کراسکتے۔دوسرے صوبوں میں پورے پورے شہر خالی کرالئے جاتے ہیں۔ ملک میں حالات معمول کے مطابق نہیں دہشتگردی کا سامنا ہے۔ تمام علاقوں کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ اس موقع پر لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن نے عبوری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ہزار گیارہ افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی۔ 316 افراد کا سراغ لگا لیا گیا۔363 افراد کے مقدمات اب بھی کمیشن میں زیر التوا ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 62 افراد کے مقدمات عدم شواہد کی بنا پر ختم کیے گئے۔اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے کل 36 مقدمات سامنے آئے۔16 کو نمٹایا گیا 20 ابھی باقی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کمیشن کو پنجاب سے 281 مقدمات موصول ہوئے 133 کو نمٹایا گیا 148ابھی باقی ہیں۔سندھ سے 124 مقدمات سامنے آئے 24 نمٹائے گئے، 100 کا فیصلہ ہونا ہے۔خیبرپی کے سے 404 مقدمات سامنے آئے جن میں سے 125نمٹا دئیے گئے، 279 کو حل کرنا باقی ہے۔ فاٹا سے 38 مقدمات سامنے آئے،12 کو نمٹایا گیا اور 26 زیر التوا ہیں۔ آزاد جموں کشمیر میں 20 مقدمات سامنے آئے 9نمٹائے گئے اور 11 زیر التوا ہیں۔ گلگت بلتستان میں صرف ایک کیس سامنے آیا جو ابھی حل کرنا باقی ہے۔ سپریم کورٹ نے اڈیالہ جیل کیس میں درخواست گزار کو کراچی سے متعلق شواہد جمع کرانے کی ہدایت کی۔