خواتین کیلئے تعلیم اور روزگار کا حصول ناممکن ہوگیا
کراچی (لیڈی رپورٹر) اوکسفیم کی جانب سے ”بہتر مستقبل کےلئے صنفی مساوات ضروری“ کے موضوع پر میڈیا ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ اندرون سندھ سے بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔ شرکاءنے خواتین کو تعلیم‘ صحت اور روزگار کی فراہمی کےلئے سفارشات پیش کیں۔ انڈس ریسورس سینٹر کی ایڈوائزر نگہت ستار نے کہا ہمارے ہاں کوئی پالیسی جینڈر ہنسٹو نہیں بنائی جاتی۔ اندرون سندھ 1,49000 سرکاری اساتذہ رجسٹرڈ ہیں جن میں خواتین 22فیصد ہیں‘ دیہات میں اسکول گھروں سے دور اور چار دیواری کے بغیر محفوظ نہ ہونے کے باعث والدین بچیوں کو اسکول نہیں بھیجتے۔ اسٹڈی کے مطابق بنگلہ دیش میں 2000 تک یہی صورتحال تھی انہوں نے لیڈی ٹیچرز کی تعداد بڑھائی اور بھرتی کا معیار میٹرک تک مقرر کرکے دیہی علاقوں میں بچیوں میں شرح خواندگی کو دگنا کرلیاہے۔ نگہت ستار نے کہا شہری اور دیہی علاقوںمیں سہولتوں کی بہت تفریق ہے۔ خواتین کےلئے تعلیم اور روزگار کے حصول میں مشکل کی بڑی وجہ مناسب ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی ہے۔ انڈس ارتھ ٹرسٹ کی نمائندہ عافیہ سلام نے کہا میڈیا کے اداروں میں بھی منفی امتیاز موجود ہے جس کا خاتمہ کیا جانا چاہئے۔ شرکاءنے اس پر اتفاق کیا کہ صنف نازک کو بنیادی حقوق کی فراہمی کےلئے مرد حضرات کو تعاون کرنا چاہئے۔ دیہی علاقوں میں ریڈیو‘ سوشل میڈیا کے ذریعے خواتین کے حقوق خصوصاً انہیں تعلیم کی فراہمی کےلئے آگہی ضروری ہے۔