آج کے چیلنجز کے موجودہ تعلیمی بجٹ

آج کے چیلنجز کے موجودہ تعلیمی بجٹ

دن بدن ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی وہ بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی نہیں بنا سکے۔ ابھی ان کے ہاں زندگی مفلسی کی قبا پہنے راہوں پر سسکتی پھر رہی ہے۔ یہ سفر کیسا سفر ہے جو ختم ہونے کی بجائے طویل ہوتا جا رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ راستہ مشکلات اور رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ ایک رکاوٹ عبور کرتے ہیں تو اس سے بڑی سامنے آ کھڑی ہوتی ہے یا کھڑی کر دی جاتی ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے تعلیم سب سے بڑی طاقت تصور کی جاتی ہے۔ تعلیم کا زیور آدمی کو انسان بنا کر کائنات کے اسرار سمجھنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ آج تک پوری دنیا میں جن قوموں نے بھی ترقی کی ہے انہوں نے تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ تعلیم صرف رسمی ڈگریوں اور درجوں کا نام نہیں بلکہ یہ ایک نقشہ ہے، منزل تک پہنچنے کا اور مسائل کو حل کر کے وسائل تلاش کرنے کا۔ اسی لئے ہر طرح کی سائنسی ترقی تعلیم کے مرہونِ منت ہے۔ مسلمانوں کی بات کریں تو ایک وقت ایسا تھا جب دنیا میں مسلمانوں کے علمی خزانوں کو سب سے بہترین تصور کیا جاتا تھا۔ پھر وہ نہ جانے کس دھند میں گم ہو گئے اور دیگر اقوام کی ترقی سے بھی انہوں نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ آج یہ عالم ہے کہ مسلم دنیا میں کوئی بڑی تخلیق ابھی تک وجود میں نہیں آئی۔ اپنے روزمرہ استعمال کی اشیاءپر غور کریں، اپنے گھر میں رکھے ہوئے سامان کو دیکھیں، ان سب پر دیگر اقوام کی مہریں آپ کا منہ چڑائیں گی۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بچے، نوجوان نئی تخلیقات کا رجحان نہیں رکھتے یا ہم نے انہیں ایسا ماحول ہی فراہم نہیں کیا۔ میرا خیال ہے دوسری بات میں زیادہ وزن ہے کیوں کہ ہمارے بچوں کو جب بھی مواقع میسر ہوئے ہیں انہوں نے کئی میدانوں میں اپنی ذہانت سے پوری دنیا کو حیران کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت جو گزشتہ کئی سالوں سے نوجوان نسل کی تعمیرِ نو کے لئے کئی پروگرام ترتیب دے چکی ہے اور ان پر عمل پیرا ہے اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے کی طرف چل پڑی ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان دشواریوں میں گھرا ہوا ہے۔ جی ہاں وہ مسئلہ تعلیم کا مسئلہ ہے۔ پنجاب حکومت کے پیش کردہ بجٹ کا اندازہ لگایا جائے تو 2007ءسے لے کر اب تک پانچ سو فیصد کا اضافہ کر چکی ہے۔ علاوہ ازیں سکولوں کی کیپیسٹی بلڈنگ کا کام بھی زوروں پر ہے۔ صاف پانی، واش رومز، بجلی، فرنیچر اور اساتذہ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے تمام اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہی دنوں ایک اور انقلابی قدم اٹھایا گیا جس کے تحت اسی ہزار ایجوکیٹر بھرتی کئے جا رہے ہیں۔ یہ مرحلہ جو 30 جون کو مکمل ہو گا ہر حوالے سے شفافیت کا آئینہ دار ہو گا۔
کسی بھی شعبے کو آگے لے کر جانے کے لئے اس شعبے کے رہنماﺅں کو متعلقہ معلومات اور ویژن کا ہونا بہت ضروری ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اس حوالے سے بھی لائق تحسین ہیں کہ ان کی دوربین نگاہ منتخب امیدواروں کی قابلیت کا احاطہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کس فرد سے کس شعبے میں بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ شاید اسی لئے انہوں نے تعلیم جیسے اہم شعبے کے لئے بہت ہی متحرک، ان تھک اور دوستانہ انداز میں کام کرنے والے رانا مشہود احمد کا انتخاب کیا جنہوں نے دن رات اپنے رہنما کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے محنت کرنے کا عزم کر کے سفر آغاز کیا اور آج بے شمار کارنامے اس شعبے کے سر پر تاج کی طرح سجے ہوئے ہیں۔ خوش قسمتی سے آج کل رانا مشہود کو ڈاکٹر اللہ بخش ملک سیکرٹری سکولز اور رانا حسن اختر سپیشل سیکرٹری سکولز جیسے محنتی افسران کا تعاون حاصل ہے۔ بیورو کریسی اور منتخب نمائندوں میں جب تک ہم آہنگی نہ ہو اچھے نتائج کی امید کم ہی ہوتی ہے۔ شکر ہے کہ تعلیم جیسے اہم محکمے میں موجود افسران اور وزیر تعلیم مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک ساتھ مل کر چل رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک پریس کانفرنس میں رانا مشہود احمد خان نے بتایا کہ 2012ءسے اب تک دو لاکھ اساتدہ کو ملازمت فراہم کی جا چکی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے سکول میں کم از کم چار اساتذہ کو تعینات کیا گیا ہے۔ 2007-08ءمیں سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد 90 لاکھ تھی جب کہ آج ایک کروڑ 25 لاکھ بچے سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کے لئے 36 ہزار نئے کلاس رومز بنائے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں جو ایجوکیشن ریفارمز کی گئی ہیں ان کا معیار اتنا بلند ہے کہ دنیا میں کہیں اس کی مثال نہیں۔ Early Childhood سکیم کے تحت 5 ہزار ادارے بن چکے ہیں جب کہ اگلے سال ان کی تعداد 10 ہزار ہو جائے گی۔ تعلیمی اداروں میں نتائج کو بہتر کرنے کے لئے بہت سخت طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔ پچھلے سال نتائج 68 فیصد جب کہ اس سال یہ شرح 84 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ آج مزدور کسان کا بیٹا بھی ایک ایسے سکول میں زیر تعلیم ہے جہاں اعلیٰ درجے کی سہولتیں میسر ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے غریب اور نادار بچوں کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے کئی انقلابی اقدامات کئے جن میں پسماندہ علاقوں کے بچوں کے لئے وظائف، آئی ٹی لیبز کے علاوہ زیورِ تعلیم، جنوبی پنجاب کے لئے دانش سکول اور دیگر پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے احترام کو بحال کرنے اور ان کے مورال کو اپ کرنے کے لئے بھی حکمتِ عملی مرتب کی گئی ہے جس کے مطابق ان کے گریڈ ریوائز کر دیئے گئے ہیں۔ گریڈ 9 کو گریڈ 14، گریڈ 14 کو گریڈ 15، گریڈ 15 کو گریڈ 16 اور گریڈ 16 میں کام کرنے والے کو گریڈ 17 جبکہ گریڈ 17 کے اساتذہ کو دو اضافی ترقیاں دی گئی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب پنجاب کے سکول سہولتوں اور تعلیمی معیار کے حوالے سے وہ درجہ اختیار کریں گے کہ بیوروکریسی، سیاستدان اور سرکاری افسران کے بچے یہاں تعلیم حاصل کرتے نظر آئیں گے۔ بھٹہ مزدوروں کے لئے خدمت کارڈ کا اجراءخادمِ اعلیٰ کا ایسا قدم ہے جس کی تحسین لفظوں کی مرہونِ منت نہیں کیوں کہ ایسے کاموں کا اجر وہ دعائیں ہیں جو دلوں سے نکل کر پورے ماحول کو پاکیزہ بنا دیتی ہیں۔